کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 372
بنا کر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‘‘
صحیح بخاری میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ آیت کریمہ {یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا} میں وارد وعید کو بیان کر کے لوگوں کو خوف دلاتے تھے، چنانچہ احنف بن قیس سے روایت ہے کہ میں مسجد نبوی میں قریش کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا تھا، اتنے میں دیکھا ایک شخص پراگندہ بال اور پھٹی پرانی حالت میں داخل ہوا، اور ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا، سلام کیا، پھر کہنے لگا: خزانہ جمع کرنے والوں کو گرم گرم پتھروں کی خوشخبری سنا دو جو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر ان کی چھاتی پر رکھا جائے گا اور وہ ان کے کندھے کی ہڈیوں کے بیچ سے پیچھے نکل جائے گا اور ان کے کندھے کی ہڈیوں پر رکھا جائے گا، پھر وہ شخص پھر کر ایک ستون کے ساتھ بیٹھ گیا، میں اس کے پیچھے گیا اور اس کے ساتھ بیٹھ گیا، میں اس کو نہیں پہچانتا تھا، میں نے اس سے کہا: لوگوں نے آپ کی بات کو ناپسند کیا ہے۔ فرمایا: وہ لوگ کچھ سمجھتے نہیں۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے استدلال کیا:
((ما أحب أن یکون لی مثل أحد ذھبا انفقہ کلہ الا ثلاثۃ دنانیر۔))
’’میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں سب کچھ تین دینار کے علاوہ خرچ کر دوں گا۔‘‘ [1]
٭ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم نے مال سے متعلق ابوذر رضی اللہ عنہ کے اس موقف کی مخالفت کی اور اس آیت میں وارد شدہ وعید کو مانعین زکوٰۃ پر محمول کیا، اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لیس دون خمس اواق صدقۃ ولیس فیما دون خمس ذود صدقۃ ولیس فیما دون خمسۃ اوسق صدقۃ۔))[2]
’’پانچ اوقیہ (۹۵ ۵ گرام) چاندی سے کم میں زکوٰۃ نہیں، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق (۷۵۰ کلو) غلہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اونٹ اگر پانچ سے زیادہ ہیں تو اس میں زکوٰۃ ہے، اور اس کا تقاضا ہے کہ جس مال میں سے زکوٰۃ ادا کر دی گئی تو اس مال والے کے لیے وعید نہیں، لہٰذا زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد جو مال انسان کے پاس بچا رہے اس کو کنز نہیں کہا جا سکتا۔[3]
ابن رشد کا بیان ہے کہ پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں، وہ زکوٰۃ کے حق سے بری کر دیا گیا ہے، لہٰذا قطعاً اس پر کنز کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا اور اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ ادا کرنے والے کی تعریف کی ہے، اور مال کے حق واجب کی ادائیگی پر جس کی تعریف کی گئی ہے، لہٰذا اس مال کی جہت سے جس کی تعریف کی گئی ہے اس کی
[1] البخاری ، الزکاۃ (۱۴۰۷)
[2] البخاری، الزکاۃ (۱۴۰۵)
[3] فتح الباری (۳؍۲۷۲)