کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 367
ہیں آج مجھ پر اعتراض کیا جا رہا ہے، یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے متعلق کہی گئی تھی، کیا ایسا نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں، بات ایسی ہی ہے۔ لوگ بلا سوچے سمجھے عیب جوئی کرتے ہیں۔[1] علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ نے جس کو بھی والی بنایا سب باصلاحیت اور عادل تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مکہ کا گورنر مقرر فرمایا تھا حالاں کہ وہ ابھی بیس سال کے تھے۔[2] عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنر امور شریعت سے جاہل نہ تھے، اور نہ دین کے سلسلہ میں کوتاہی کرنے والے تھے، اگر ان سے بعض غلطیاں سر زد ہوئیں تو اس کے مقابلہ میں ان کے پاس بہت زیادہ حسنات و نیکیاں تھیں، اور پھر ان کی غلطیوں کا اثر صرف انہی پر موقوف رہا، مسلم معاشرہ پر اس کا کوئی اثر نہ تھا۔ ہم نے ان گورنروں کے آثار کا ان کے دور ولایت میں جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اسلام و مسلمانوں کے لیے انتہائی مفید رہے، آپ کے گورنروں کے ہاتھ پر لاکھوں افراد نے اسلام قبول کیا، اور ان کی فتوحات سے بہت سے ممالک اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے۔ اگر ان کے اندر جہاد پر ابھارنے والی شجاعت و دین داری نہ ہوتی تو کبھی یہ اسلامی لشکروں کی قیادت نہ کرتے، کیوں کہ اس میں ہلاکت کا خطرہ اور راحت و متاع دنیا سے بیزاری پائی جاتی ہے۔ ہم نے ان گورنروں کی سیرتوں کا جائزہ لیا تو ان میں سے ہر ایک کی فتوحات کا ایک سلسلہ پایا، اپنے اپنے صوبوں کے قرب و جوار میں سب نے فتوحات کیں، اور اسی طرح ان کے مناقب و صفات حسنہ کا پتہ چلا جس سے ان کی قیادت و اہلیت ثابت ہوتی ہے۔[3] جو شخص بھی صحیح تاریخی واقعات کی طرف رجوع کرے گا اور ان نفوس کی سیرت کا جائزہ لے گا، جن سے امیر المومنین عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں استفادہ کیا، اور ان کے جہاد سے اسلامی دعوت کی تاریخ پر جو بہترین اثرات نمایاں ہوئے، بلکہ ان کے حسن انتظام و انصرام سے امت کی خوش حالی اور سعادت کے سلسلہ میں جو عظیم نتائج مترتب ہوئے تو انصاف پسند انسان اپنی پسندیدگی اور فخر کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔[4] عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کے گورنران دشمنان اسلام سے جہاد و مدافعت میں مشغول رہے، اور یہ مشغولیت اسلامی سلطنت میں توسیع اور جدید علاقوں میں اس کے اثر و رسوخ کو بڑھانے سے مانع نہ ہوئی۔ گورنر حضرات براہ راست عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ کھڑا کرنے میں ملوث قرار دیے گئے، اور ان پر یہ اتہام باندھا گیا کہ ان حضرات نے لوگوں پر مظالم ڈھائے، لیکن ہم کوئی واقعہ ایسا نہیں پاتے جس سے یہ مزعومہ اتہام پایہ ثبوت کو پہنچے۔ اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ اتہام باندھا گیا کہ آپ نے اپنے اقرباء کو مناصب عطا کیے، اس اتہام کے بخیے ہم نے ادھیڑے ہیں، اور یہ حقیقت ہمارے سامنے آشکارا ہو چکی ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے امت کی خیر خواہی اور باصلاحیت
[1] تاریخ الطبری (۵؍۳۵۵) [2] البدایۃ والنہایۃ (۸؍۱۷۸) [3] المدینۃ المنورۃ فجر الاسلام (۲؍۲۱۱) [4] حاشیۃ المنتقی من منہاج الاعتدال ص (۳۹۰)