کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 365
میرا مقصود صرف اس کو یہ بتانا تھا کہ اس کے اوپر بھی ایک قوت ہے جو میری مدد کرے گی، اور میں نے اپنا یہ حق آپ کو ہبہ کر دیا۔ مروان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اسے قبول نہیں کروں گا، تم اپنا حق لے لو۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں طمانچہ نہیں لگا سکتا، لیکن میں آپ کو ہبہ کرتا ہوں۔ مروان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم میں اسے قبول نہیں کر سکتا اگر تمھیں ہبہ کرنا ہے تو اس کو ہبہ کرو جس نے تم کو طمانچہ مارا ہے، یا پھر اللہ کے حوالہ کر دو، اس نے کہا: میں نے اللہ کے لیے ہبہ کر دیا۔ اس موقف سے عبدالرحمن سخت ناراض ہوئے اور اپنے بھائی مروان کی ہجو میں اشعار کہے۔[1] مروان رضی اللہ عنہ کے علم و عدل اور فقہ و تدین کی یہ تصویر، اس ناپسندیدہ تصویر کے بالکل برعکس ہے جسے اکثر مؤرخین اور قصہ گو پیش کرتے ہیں، جنھوں نے مروان رضی اللہ عنہ کی زندگی کو بدنما کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ وفات کے وقت بھی آپ کو نہیں بخشا بلکہ آپ کی شکل کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کی، اور یہ گمان کر بیٹھے کہ آپ کی بیوی ام خالد بن یزید بن معاویہ نے تکیہ کے ذریعہ سے گلا گھونٹ کر مار ڈالا، یا زہر دے دیا، کیوں کہ مروان رضی اللہ عنہ نے ان کے بیٹے خالد کو لوگوں کے سامنے گالی دے دی تھی۔ تناقضات سے پر اس قصہ پر پہلی نظر ڈالنے سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ قوم کی بوڑھیوں نے اسے گھڑا ہے، اور پھر لوگوں نے بلا سوچے سمجھے بیان کرنا شروع کر دیا اس کے پیچھے بکواس کرنے کا شوق اور اس بلند مقام خاندان کی شہرت و وجاہت اور شرف و منزلت پر حسد کارفرما رہا۔[2] آپ کی موت طبعی تھی یا طاعون کے سبب ہوئی یا بیوی نے گلا گھونٹ دیا؟ روایات کا یہ تناقض اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقت معلوم نہیں۔ اور جن روایات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بیوی نے خود یا بعض لونڈیوں کے ذریعہ سے قتل کر دیا تھا، یہ روایات مقبول اور معقول نہیں ہیں۔ یہ بیوی عبدشمس جیسے شریف گھرانے کی شریف خاتون تھی، شوہر اس کا قریبی رشتہ دار اور خلیفہ وقت تھا اس طرح یہ خاتون معمولی خاتون نہ تھی، خلیفہ کی بیوی اور خلیفہ (معاویہ بن یزید) کی ماں تھی۔ ایسا گھٹیا کام شریف زادیاں نہیں کیا کرتی ہیں، مزید قابل غور پہلو یہ ہے کہ اگر اس خاتون نے ایسا کیا تھا تو پھر اس کا خاندان کے اندر کوئی اثر نہیں آیا اور نہ خاندان میں کوئی اختلاف رونما ہوا، اور نہکسی نے قصاص و بدلہ کا مطالبہ کیا، اور خالد بن یزید رحمہ اللہ کا وہی مقام عبدالملک بن مروان کے ہاں باقی رہا، اور پھر اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو صرف قتل پر بات ختم نہ ہوتی، بلکہ جس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے قتل کیا گیا تھا اس کی تکمیل کی کوشش کی جاتی۔[3] بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ مروان رضی اللہ عنہ نے آخری بات جو کہی وہ یہ تھی: جو جہنم سے ڈرا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ اور آپ کی انگوٹھی (مہر) کا نقش ’’العزۃ للّٰه‘‘ تھا، اور بعض لوگوں نے کہا: ’’امنت
[1] الدولۃ الامویۃ المفتری علیہا ص (۲۰۰) [2] عبدالملک بن مروان؍ د۔الریس ص (۱۲) [3] الدولۃ الامویۃ المفتری علیہا ص (۲۰۱)