کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 363
مروان بن حکم اموی رضی اللہ عنہ اور ان کے والد: سلسلہ نسب: مروان بن الحکم بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف القرشی الاموی۔[1] مروان بن حکم رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کے قرابت داروں میں خصوصی مقام حاصل تھا، مرکز خلافت سے آپ کا تعلق دوسروں کی نسبت زیادہ قوی تھا، اور عہد عثمانی میں اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے حالات و حوادث کے ساتھ آپ کا نام سب سے زیادہ جڑا ہوا ہے کیوں کہ آپ بحیثیت حکومت کے پرائیویٹ سیکرٹری یا بادشاہ کے مہر بردار تھے۔[2] مروان رضی اللہ عنہ تن تنہا خلیفہ کے مشیر نہ تھے بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ اکابرین صحابہ اور اصاغرین صحابہ سبھی سے مشورہ لیتے تھے۔ مروان رضی اللہ عنہ ایسے وزیر بھی نہ تھے اور اس منصب کو اس حیثیت سے اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ اس کا حامل خلیفہ کے کان اور مہر سے قریب ہوتا ہے، لیکن لوگوں کا یہ ادعا کہ آپ ہی نے عثمان رضی اللہ عنہ کو مشکلات اور پریشانیوں میں ڈالا اور لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑکایا تاکہ خلافت بنو امیہ کی طرف منتقل ہو جائے، یہ فرضی باتیں ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ خلافت، بنو امیہ کی طرف بڑے سنگین خطرات کے بعد منتقل ہوئی ہے جس میں مروان رضی اللہ عنہ کا کوئی اہم کردار نہیں تھا مزید برآں عثمان رضی اللہ عنہ اس قدر ضعیف شخصیت کے حامل نہیں تھے کہ آپ کے کاتب اس حد تک پہنچ جائیں جیسا کہ قصہ گو تصور کر رہے ہیں۔[3] مروان بن حکم رضی اللہ عنہ اگر دورِ نبوی میں اہل علم کے قول کے مطابق بلوغت کو نہیں پہنچے تھے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ آپ کی عمر دس سال یا اس سے قریب تھی، آپ مسلمان تھے، قرآن پڑھتے تھے، دین کا علم حاصل کرتے تھے اور فتنہ سے قبل آپ پر کسی طرح کا کوئی اتہام نہیں تھا، تو پھر ان کو کاتب بنانے میں عثمان رضی اللہ عنہ کا کیا قصور ہے، رہا دورِ فتنہ تو اس میں تو مروان رضی اللہ عنہ سے افضل لوگ بھی نہ بچ سکے۔[4] بلکہ آپ کے والد کو مدینہ سے جلاوطن کرنے والی روایت سند و متن دونوں اعتبار سے ضعیف ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کا تعاقب کیا ہے اور اس کے ضعف و فساد کو واضح فرمایا ہے۔[5] مروان بن الحکم رضی اللہ عنہ علم و فقہ اور عدل میں معروف ہیں، آپ نوجوانان قریش کے سادات میں سے ہیں اور آپ کا ستارئہ اقبال عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بلند ہوا۔ آپ کی فقاہت کی شہادت امام مالک رحمہ اللہ نے دی ہے، اور اپنی کتاب موطا میں مختلف مقامات پر آپ کے فتاویٰ و قضایا سے استدلال کیا ہے، اور اسی طرح اس کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں جو ائمہ اسلام کے یہاں متداول اور معمول بہ ہیں، آپ سے مرویات، فتاویٰ اور اقوال و فیصلے وارد ہیں۔[6]
[1] الاصابۃ (۸۳۳۷) [2] عثمان بن عفان؍ صادق عرجون ص (۱۱۷) [3] الدولۃ الامویۃ المفتری علیہا؍ حمدی شاہین ص (۱۶۰) [4] منہاج السنۃ (۳؍۱۹۷) [5] منہاج السنۃ (۳؍۱۹۵۔۱۹۶) [6] الدولۃ الامویۃ المفتری علیہا ص (۱۶۹)