کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 362
یہ بات طے ہو گئی کہ نوبی مقررہ جزیہ مسلمانوں کو ادا کرتے رہیں گے۔[1] حقیقت میں عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ پہلے مسلم جرنیل ہیں جنھوں نے نوبہ پر حملہ کیا، اور ان سے قتال کر کے ان پر جزیہ عائد کیا، آپ کے دور امارت میں یہی حالت رہی اور نوبی برابر جزیہ ادا کرتے رہے۔ اسی طرح عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے اہم ترین جنگی کارناموں میں سے معرکہ ذات الصواری ہے، جس میں مسلمانوں کو رومیوں پر فتح حاصل ہوئی۔ مصریوں کے نزدیک آپ کا دور امارت عام طور سے قابل تعریف رہا، کوئی ناپسندیدہ بات پیش نہ آئی، سبھی خوش رہے۔ مقریزی کا بیان ہے: ’’عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی پوری مدت میں آپ امیر رہے اور پوری مدتِ امارت آپ کی تعریف کی جاتی رہی۔‘‘[2] امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’پوری مدتِ امارت میں کوئی قابل گرفت کام نہ کیا کہ جسے ناپسند کیا جائے۔ آپ عقلاء اور سخی لوگوں میں سے ایک تھے۔‘‘ [3] مصر کی امارت ابتداء میں بڑی پرسکون تھی، امن و استقرار کا دور دورہ تھا، یہاں تک کہ عبداللہ بن سبا جیسے فتنہ پرداز وہاں پہنچے، اور لوگوں کو بھڑکانا شروع کیا، ان سبائیوں اور ان سے متاثر افراد کا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں اہم رول رہا، اور اس طرح مصر کے حالات وہاں سے شرعی والی کو نکال دینے اور غیر شرعی طریقہ پر دوسرے لوگوں کے قابض ہو جانے کی وجہ سے مضطرب ہو گئے تھے، اور اس مدت میں یہ لوگ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف لوگوں کے دلوں میں بغض و کراہیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کی دسیسہ کاریوں اور من گھڑت افواہوں اور اکاذیب کے نتیجہ میں ایسا ہوا۔[4] اس کی تفصیل ان شاء اللہ عنقریب آئے گی۔ جب شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا فتنہ رونما ہوا تو عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے مصر کو چھوڑ کر فلسطین میں ’’عسقلان‘‘ یا ’’رملہ‘‘ میں سکونت اختیار کر لی۔ امام بغوی نے بہ سند صحیح یزید بن ابی حبیب سے روایت کی ہے: ’’عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ (فلسطین) چلے گئے، اور صبح کے وقت یہ دعا کی اے اللہ! صبح کی نماز کو میرا آخری عمل بنا دے، وضو کیا پھر نماز پڑھی، دائیں جانب سلام پھیرا، بائیں طرف سلام پھیرنے لگے کہ اتنے میں اللہ نے روح قبض کر لی۔‘‘[5]
[1] الولایۃ علی البلدان (۱؍۱۸۱)، فتوح مصر و اخبارہا ، ص (۱۸۸) [2] الخطط (۱؍۲۹۹) [3] سیر اعلام النبلاء (۳؍۳۴) [4] الولایۃ علی البلدان (۱؍۱۸۶) [5] الاصابۃ (۴۷۲۹) سیر اعلام النبلاء (۳؍۳۵)