کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 352
کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو بنو مصطلق کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ بنو مصطلق کے لوگ اسلحہ سے لیس ان کے استقبال کے لیے نکلے یہ سمجھ نہ سکے اور خوفزدہ ہو کر راستہ سے لوٹ آئے، اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رپورٹ پیش کر دی کہ وہ لوگ مرتد ہو گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف روانہ کیا، اور یہ حکم فرمایا کہ کوئی کارروائی کرنے سے قبل تحقیق کر لیں۔ بنو مصطلق کے لوگوں نے انہیں خبر دی کہ وہ تو اسلام پر قائم ہیں اور ان کے پاس کوئی زکوٰۃ وصول کرنے آیا ہی نہیں۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔[1] اس سلسلہ میں متعدد روایات وارد ہیں لیکن اس قصہ کی کوئی بھی صحیح متصل سند نہیں ہے۔[2] کم از کم اس کی سند ضعیف ضرور ہے، اور لوگوں نے فضائل اعمال میں جہاں تحلیل و تحریم کا مسئلہ نہ ہو ضعیف اسانید کو اگرچہ قبول کیا ہے[3] لیکن ہم ولید رضی اللہ عنہ سے متعلق اسے قبول نہیں کر سکتے کیوں کہ اس سے امر حرام کی تحلیل لازم آتی ہے، اور ایک ایسے شخص کو فاسق قرار دیتی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مشرف ہے، اگرچہ یہ صحبت ایک دن ہی کی ہو، صحابی رسول کو فاسق قرار دینا حرام ہے۔ اور یہ آیت کریمہ بذات خود روایات کے قبول کرنے میں تحقیق پر ابھارتی ہے۔ اس آیت کریمہ نے تو علم روایت کی اساس رکھ دی ہے۔[4] ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کی طرف جو قصہ منسوب کیا گیا ہے اس میں صرف وہی صحیح روایات ہی قبول کی جائیں گی جن کی سند و متن دونوں صحیح ہوں، کیوں کہ یہ صحابہ کو فسق سے متصف قرار دیتی ہیں اور یہ ایسا طعن ہے جسے پندرہ صدیوں کے بعد دور حاضر کے عام انسان کے سلسلہ میں بھی قبول کرنے میں تساہل نہیں برتا جا سکتا تو بھلا ایسے شخص سے متعلق جس نے عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور میں زندگی گزاری ہو اور اہم ذمہ داریاں اور مناصب اس کو سونپے گئے ہوں اس کے بارے میں اس طرح کی باتوں کی نسبت کیسے تساہل برتا جا سکتا ہے، اور اسے بلا تحقیق و توثیق کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ شان نزول کا یہ قصہ اسلامی تاریخ کے صدر اوّل کے ایک حصہ کی نمائندگی کر رہا ہے، اور اس قصہ کے اجزاء و حوادث اسلامی عقیدہ سے متعلق ہیں، پس اسلامی تاریخ کے اس پہلو کی روایات کو قبول کرنے میں تساہل نہیں برتا جا سکتا جس طرح کہ شہر تہذیب و تمدن سے متعلق اخبار کو قبول کرنے میں تساہل برتا جاتا ہے۔
[1] المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام (۲؍۱۷۶) [2] المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام (۲؍۱۷۶) شان نزول کی روایت مسند احمد (۴؍۲۷۹) اور طبرانی کبیر (۳۳۹۵۰) میں ہے، لیکن اس کی سند میں عیسیٰ بن دینار اپنے والد دینار سے روایت کرتے ہیں اور دینار مجہول ہیں۔ ابن حبان کے علاوہ کسی نے ان کی توثیق نہیں کی ہے، اور ابن حبان مجاہیل کی توثیق میں معروف ہیں۔ (مترجم) [3] فضائل اعمال میں بھی راجح قول یہی ہے کہ ضعیف روایات مقبول نہیں۔ دیکھیے صحیح الترغیب للالبانی کا مقدمہ (مترجم) [4] المدینۃ المنورۃ فجر الاسلام (۲؍۱۸۲)