کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 345
نیز فرماتے ہیں: آپ اچھی سیرت و کردار کے مالک، بہترین چشم پوشی اور معاف کرنے والے، عفو جمیل کے پیکر اور بہت زیادہ پردہ پوشی کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتیں نچھاور فرمائے۔[1] ۴۔ روایت حدیث: معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ احادیث نبویہ کے رواۃ میں سے ہیں، کیوں کہ آپ نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کو لازم پکڑا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالے اور کاتب رہے، چنانچہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سو تریسٹھ (۱۶۳) احادیث روایت کی ہیں جن میں سے چار احادیث متفق علیہ ہیں، اور اس کے علاوہ چار احادیث صحیح بخاری میں، اور پانچ احادیث صحیح مسلم میں ہیں۔[2] رعایا کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کا برتائو بہت ہی بہتر تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ سے محبت کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خیار أئمتکم الذین تحبونہم و یحبونکم، ویصلون علیکم و تصلون علیہم ، و شرار ائمتکم الذین تبغضونہم ویبغضونکم و تلعنونہم و یلعنونکم۔))[3] ’’تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تم ان کے لیے دعائیں کرو، اور بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں اور جن پر تم لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔‘‘ (الحدیث) معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق اپنی گفتگو کو میں قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ کے اس بیان پر ختم کرنا چاہتا ہوں: ’’عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو شام کا گورنر مقرر فرمایا، اور پورے شام کو آپ کے تابع کر دیا، اور عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس منصب پر باقی رکھا بلکہ حقیقت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو گورنر مقرر فرمایا تھا، کیوں کہ انہوں نے آپ کے بھائی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو شام کا گورنر مقرر فرمایا تھا اور یزید رضی اللہ عنہ نے اپنا جانشین معاویہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اپنے منصب پر برقرار رکھا، اب آپ ملاحظہ کریں کہ یہ سلسلہ کس قدر مضبوط ترین ہے۔‘‘[4] یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کاتب مقرر فرمایا، اور یہ اسلامی سلطنت میں مناصب کی تولیت کی ایک سند ہے، آپ سے قبل اور آپ کے بعد یہ شرف کسی کو حاصل نہیں، چنانچہ آپ کی تولیت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر ،عثمان رضی اللہ عنہم کا اتفاق رہا، اور پھر نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن بن
[1] البدایۃ والنہایۃ (۸؍۱۲۶) [2] مرویات خلافۃ معاویۃ فی تاریخ الطبری ص (۳۳) [3] مسلم، الامارۃ (۶۵،۱۸۶۶) [4] العواصم من القواصم ص (۸۲)