کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 326
جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان سے وصول کرو، پھر ذمیوں کی طرف متوجہ ہو، ان کے حقوق انہیں ادا کرو اور ان پر عائد شدہ حقوق کو ان سے حاصل کرو، پھر دشمن جن پر غالب آنا چاہتے ہیں انہیں وفائے عہد سے فتح کرو۔‘‘[1]
اس خط میں ہم دیکھتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے گورنروں کے لیے سیاست کے ایسے نقوش متعین کر دیے تھے جن پر چلنا ان کے لیے ضروری تھا مثلاً مسلمانوں کو ان کے حقوق ادا کرنا اور ان کے واجبات کا ان سے مطالبہ کرنا، ذمیوں کو ان کے حقوق ادا کرنا اور ان سے ان کے واجبات کا مطالبہ کرنا اور دشمن کے ساتھ بھی وفا کرنا اور ان تمام امور میں عدل کا دامن نہ چھوڑنا۔ آپ نے گورنروں کے لیے یہ واضح کیا کہ ان کا مقصد صرف مال کو وصول کرنا نہ ہو۔[2]
اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ صوبہ کے انتظامی امور سے متعلق نو آمدہ مسائل میں اپنے گورنروں کو خصوصی تعلیمات ارسال کرتے، اور یہ تعلیمات ان عام خطوط کے علاوہ ہوتیں جن میں عام تعلیمات صادر فرماتے جن کا التزام سب کے لیے ضروری ہوتا، انہی میں سے وہ خط تھا جس کے ذریعہ سے تمام صوبوں میں آپ نے تمام لوگوں پر یہ ضروری قرار دیا کہ وہ ان مصاحف کو لازم پکڑیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگرانی میں مدینہ میں ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں، چنانچہ آپ نے ایک نسخہ ان مصاحف میں سے مدینہ کے لیے خاص کرنے کے ساتھ کوفہ، بصرہ، مکہ، مصر، شام، بحرین، یمن، الجزیرہ کی طرف ان مصاحف کا ایک ایک نسخہ ارسال فرمایا۔[3] نیز ان مصاحف کے علاوہ قرآن کے جو شخصی نوشتے لوگوں نے اپنے اپنے اعتبار سے یادداشت کے لیے تیار کر رکھے تھے آپ نے با جماع صحابہ ان نوشتوں کو جمع کرنے اور جلا دینے کا حکم صادر فرمایا جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔[4]
اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ اس بات کے انتہائی حریص تھے کہ صوبوں کے امراء و گورنر آپس میں نئے ممالک کو فتح کرنے اور جہاد کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت کریں، چنانچہ آپ نے بصرہ کے گورنر عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور کوفہ کے گورنر سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو تحریر کیا کہ تم دونوں میں سے جو خراسان کوفتح کرنے میں سبقت کر لے گا وہ وہاں کا امیر ہو گا، جس کے نتیجہ میں عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے خراسان کو فتح کیا، اور سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے طبرستان کو فتح کیا۔[5]
[1] تاریخ الطبری (۵؍۲۴۴)
[2] الولایۃ علی البلدان (۱؍۲۱۵)
[3] تاریخ المدینۃ ؍ ابو زید البصری (۳؍۹۹۷)
[4] تاریخ المدینۃ (۳؍۹۹۵۔۹۵۶)۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ قرآن کو اختلاف سے بچایا جا سکے، کیوں کہ لوگوں نے اپنے اپنے اعتبار اور سہولیت کے پیش نظر انہیں تیار کیا تھا، کسی خاص ترتیب کا خیال نہ کیا گیا تھا، اور اسی طرح بعض سورتوں کو لکھا اور بعض کو چھوڑ رکھا تھا، اور تفسیری الفاظ بھی اس میں لکھ رکھے تھے، بعد میں آنے والوں کے لیے امتیاز کرنا مشکل تھا، لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ ان نوشتوں کو جلا دیا جائے، اور امت کو کتاب الٰہی میں اختلاف سے بچا لیا جائے۔ (مترجم)
[5] تاریخ الیعقوبی (۲؍۱۶۶)