کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 317
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی معزولی سے متعلق متعدد روایات بیان کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ لشکر بصرہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مابین اختلافات رونما ہوئے، اور اہل بصرہ کی ایک جماعت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی معزولی کا مطالبہ کیا، اور عرض کیا کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں، ہم یہ نہیں پسند کرتے کہ آپ اس سے متعلق ہم سے سوال کریں، آپ ان کے بدلے کسی اور کو مقرر کر دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: ان کی جگہ کس کو پسند کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: کوئی بھی ان کا بدل ہو سکتا ہے، اور کچھ لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ کسی قریشی کو گورنر مقرر فرما دیں۔[1] اس صورت حال میں عثمان رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ان کی جگہ بصرہ کا گورنر عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو مقرر فرما دیا۔ یہاں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حکمت، وسعت ظرف اور خلیفہ وقت کی اطاعت عیاں ہوتی ہے، آپ کو گورنری کا بالکل لالچ نہ تھا جیسا کہ بعض لوگوں کا ناقص گمان ہے، چنانچہ جب آپ کو اپنی معزولی اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی تقرری کی اطلاع ملی آپ منبر پر تشریف لائے، اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی تعریف کی جو اس وقت پچّیس سال کے نوجوان تھے۔ جو تعریفی کلمات ان کی شان میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہے ان میں سے آپ کا یہ قول بھی تھا: ’’تمہارے اوپر ایسا نوجوان گورنر مقرر کیا گیا ہے جس کی پھوپھیاں، خالائیں اور دادیاں قریش کی شریف زادیاں ہیں وہ تم پر خوب مال لٹائے گا۔‘‘[2] ان سخت ترین حالات میں جس سے بصرہ کا صوبہ دوچار تھا عثمان رضی اللہ عنہ ایسا نیا قائد مقرر کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی اطاعت کو لشکر قبول کر لے اور اعداء کے سامنے ان کی صفیں متحد ہوں، اور ساتھ ہی ساتھ یہ معزولی ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی تکریم بھی تھی کیوں کہ اس طرح بعض لوگوں کی توہین سے آپ کو محفوظ کر لیا گیا جو باغیوں کے منحرف افکار سے متاثر تھے، جنھوں نے اپنے دلوں میں آپ کی کراہیت بٹھا رکھی تھی اور اس کی تشہیر کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے دھڑ بندی کر لی تھی۔[3] جس وقت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے عہدہ سنبھالا اس وقت بصرہ کا صوبہ سخت ترین حالات سے دوچار تھا، جس کی وجہ سے عثمان رضی اللہ عنہ نے صوبہ کے انتظام و انصرام کے سلسلہ میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کیں، چنانچہ بحرین اور عمان کے لشکر کو بصرہ میں ابن عامر رضی اللہ عنہ کے تابع کر دیا تاکہ ان چیلنجوں کے مقابلہ میں ان کو وافر مقدار میں قوت بہم پہنچے جن سے ان کا مقابلہ تھا۔ لشکر کے اس انضمام کا ابن عامر رضی اللہ عنہ کی قوت و اقتدار پر کافی اثر ہوا، اور اس طرح خود بصرہ کی صورت حال پر اس کا گہرا اثر یہ ہوا کہ وہ امن و استقرار سے پر اسلامی مرکزی شہروں میں
[1] تاریخ الطبری (۵؍۲۶۴) [2] تاریخ الطبری (۵؍۲۶۶)، سیر اعلام النبلاء (۳؍۱۹) [3] الولایۃ علی البلدان (۱؍۱۸۹)