کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 305
اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کا التزام کریں۔ یہ اصول اس دین عظیم کا اہم ترین اصول ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہی اصل عظیم اسلام ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی بڑی وصیت فرمائی ہے اور اس کے ترک پر اہل کتاب وغیرہ کی بڑی مذمت کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص و عام مختلف مقامات پر اس کی بڑی وصیت فرمائی ہے۔‘‘[1] اسی لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس امر کا حکم فرمایاہے جو مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور الفت و محبت کو باقی رکھے اور ہر اس امر سے منع فرمایا جو اس امر عظیم میں خلل انداز ہو۔ مسلمانوں کے درمیان جو افتراق و اختلاف، قطع تعلق اور آپس میں جنگ و جدال رونما ہوا وہ اس اصل عظیم اور اس کے ضوابط کو اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہوا جس کے نتیجہ میں ان کی صفوں میں دراڑ پیدا ہوئی اور اتحاد پارہ پارہ ہوا اور وہ مختلف فرقوں، احزاب اور ٹولیوں میں منقسم ہو کر رہ گئے اور ہر پارٹی اپنے میں مگن ہے۔[2] مسلمانوں کی وحدت اور ان کا اتحاد شرعاً مطلوب اور مقاصد شریعت میں سے اہم ترین مقصد ہے بلکہ دین اسلام کے غلبہ کے اہم ترین اسباب میں سے ہے اور ہمیں تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا حکم دیا گیا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ علمائے امت و داعیان، اسلامی تحریکات کے قائدین اور طلبہ کے مابین حقیقی معنی میں اصلاح ذات البین کی کوشش کی جائے کیوں کہ ناقص اہل اصلاح سے افساد کے کام زیادہ ہوتے ہیں، شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاد کی دو قسمیں ہیں: ایک جہاد وہ ہے جس سے مقصود مسلمانوں کی اصلاح و بھلائی اور عقائد و اخلاق، آداب اور دینی و دنیوی امور اور علمی تربیت میں ان کی اصلاح ہے۔ یہ قسم اصل جہاد اور اس کی اساس ہے۔ اسی پر دوسری قسم استوار ہوتی ہے، اور دوسری قسم وہ جہاد ہے جس سے مقصود اسلام اور مسلمانوں کے لیے خلاف کفار و منافقین، ملحدین اور تمام اعدائے دین کا دفاع اور مقابلہ ہے، اور اس کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک حجت و برہان اور زبان و قلم سے جہاد، اور دوسرا ہر دور و زمان کے مناسب اسلحہ کے ذریعہ سے جہاد۔[3] اس کے بعد شیخ نے مستقل فصل اس عنوان سے قائم کیا ہے: ’’مسلمانوں سے متعلق الفت و محبت اور اتفاق کلمہ کے ذریعہ سے جہاد۔‘‘[4]
[1] مجموع الفتاوی (۲۲؍۳۵۹) [2] تبصیر المومنین بفقہ النصر و التمکین؍ الصلابی ص (۳۰۷) [3] وجوب التعاون بین المسلمین ص (۵) [4] وجوب التعاون بین المسلمین ص (۵)