کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 301
ہے جنھوں نے ان ضعیف اور رافضی روایات پر اعتماد کیا ہے جو صحابہ کے آپس کے تعلقات کو مسخ کرتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو وہ ہیں جنھوں نے فتنہ و اختلاف سے بچنے کے لیے خلیفہ کی متابعت میں منیٰ کے اندر نماز میں قصر کو ترک کر دیا تھا تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ منبر پر چڑھ کر لوگوں کو اختلاف پر بھڑکائیں گے ؟جب کہ انہی کا قول ہے کہ اختلاف شر ہے۔[1] رافضی مؤرخین نے روایات وضع کیں اور پھر انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر دیا، انہوں نے ان مکتوبہ روایات کے اندر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ تصویر کشی کی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے بغض و عناد رکھتے تھے، آپس میں جھگڑتے اور فحش کلامی کرتے تھے، یہ اور اس طرح کی روایات ساقط الاعتبار ہیں، علمی اور موضوعی نقد کے سامنے نہیں ٹھہرتی ہیں۔ ایمانی ذوق اور عقل سلیم کے منافی ہیں۔[2] روافض کا یہ زعم باطل اور جھوٹ ہے کہ عبداللہ بن مسعود،عثمان رضی اللہ عنہما پر طعن و تشنیع کرتے اور ان کی تکفیر کرتے تھے، اور عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو کوڑے لگائے یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے۔ یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر صریح جھوٹ ہے۔ علمائے شریعت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں کرتے تھے بلکہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت ہوئی تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مدینہ سے کوفہ روانہ ہوئے اور کوفہ پہنچ کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: اما بعد! امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی، ہم نے اس دن سے بڑھ کر کوئی غم ناک دن نہیں دیکھا، اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جمع ہوئے اور اپنے میں سے سب سے بہتر کو اختیار کرنے کی پوری کوشش کی، اور امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ سے ہم نے بیعت کی، اور پھر لوگوں نے بیعت کی۔[3] یہ واضح ترین بیانات اس بات کی بہت بڑی دلیل ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے دل میں عثمان رضی اللہ عنہ کا انتہائی بلند مقام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف کی ہے اور انہیں اپنی رضا مندی کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا ہے، وہ اس فرمان الٰہی کو سب سے زیادہ بہتر سمجھنے والے تھے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) (الاحزاب: ۷۰) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول حقیقت پر مبنی سچا قول تھا۔ ان کی بات انشراح صدر اور یقین و اخلاص کی آواز تھی، کسی خوف و ڈر کی بنیاد پر یہ بات آپ نے نہیں کہی تھی۔ آپ نے یہ کلمات یوں ہی دھوکا دینے کے لیے
[1] فتنۃ مقتل عثمان بن عفان (۱؍۸۰) [2] عبداللہ بن مسعود؍ عبدالستار الشیخ ص (۳۳۵) [3] طبقات؍ ابن سعد (۳؍۶۳)