کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 293
سے روایت ہے: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کن لوگوں نے حفظ قرآن مکمل کر رکھا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: چار افرادنے جو سب کے سب انصار میں سے تھے: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید رضی اللہ عنہم ۔[1] تدوین قرآن کے سلسلہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو طریقہ کار اختیار فرمایا وہ یہ تھا کہ آپ اس وقت تک مصحف میں کوئی چیز تحریر نہ فرماتے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ تحریر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عمل میں آئی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے حفظ کر رکھا ہے۔ صرف حفظ پر اعتماد نہ کرتے جب تک کہ وہ تحریری شکل میں موجود نہ ہو، کیوں کہ صرف حفظ کی صورت میں وہم و خطا کا خطرہ موجود تھا، اور کسی سے کوئی تحریر اس وقت تک قبول نہ کرتے جب تک وہ دو گواہ نہ پیش کر دے کہ یہ تحریر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عمل میں آئی ہے اور ان وجوہ و احرف میں سے ہے جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔[2] اس نہج پر زید رضی اللہ عنہ پوری احتیاط اور انتہائی تلاش و جستجو اور باریک بینی کے ساتھ تدوین قرآن میں لگے رہے۔[3] عہد نبوی اور عہد صدیقی کی کتابت قرآنی میں فرق: عہد نبوی اور عہد صدیقی کی کتابت میں یہ فرق تھا کہ عہد نبوی میں قرآن مختلف صحائف، تختیوں، کھجور کی ٹہنیوں، تنوں اور بانس اور دیگر اشیاء پر تحریر کیا گیا تھا، اس کی سورتیں ترتیب سے ایک لڑی میں نہیں جمع کی گئی تھیں لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں کتابت قرآن کے سلسلہ میں یہ اہتمام کیا گیا کہ قرآن کو صحائف میں لکھا گیا، ہر سورت کو صحیفہ میں آیات کی اس ترتیب کے ساتھ مدون کیا گیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے یاد کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کتابت شدہ قرآن کو صحائف میں تحریر میں لائیں اور ہر سورت کی آیات کو صحیفہ میں توقیفی ترتیب کے ساتھ مدون کریں۔ [4] تیسرا مرحلہ …عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد میں عہد عثمانی میں قرآن کی جمع و تدوین کا سبب: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آرمینیہ اور آذربیجان میں اہل شام اور اہل عراق کی اسلامی افواج ایک ساتھ جنگ لڑ رہی تھیں، ان کے درمیان قرآن کی قراء ت میں اختلاف رونما ہوا جس سے حذیفہ رضی اللہ عنہ بے حد پریشان ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: یہود و نصاری
[1] سیر اعلام النبلاء (۲؍۴۳۱) [2] التفوق و النجابۃ علی نہج الصحابۃ ص ۷۴۔ [3] الانشراح ورفع الضیق بسیرۃ ابی بکر الصدیق ؍ الصلابی ، ص (۲۰۶)۔ [4] المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام و العصر الراشدی (۲؍۲۴۱)