کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 291
عمر نے کہا: واللہ یہ کار خیر ہے، پھر برابر عمر مجھ سے اس کے لیے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرا سینہ کھول دیا، جس کے لیے عمر کا سینہ کھولا تھا، اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمر کی ہے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم عقل مند نوجوان آدمی ہو، تم پر کوئی اتہام نہیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے لہٰذا تم قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو۔[1] زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو وہ میرے لیے جمع قرآن سے زیادہ مشکل نہ ہوتا، چنانچہ میں نے قرآن کو کھجور کی ٹہنیوں، پتھر کی سلوں، لوگوں کے سینوں، چمڑوں اور شانہ کی ہڈیوں سے جمع کیا، یہاں تک کہ سورۂ توبہ کی آخری آیات: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (128) (التوبۃ: ۱۲۸) سے آخری سورت تک صرف ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملیں۔[2] یہ مصحف تیار کر کے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ کر دیا گیا ، وہ آپ کی زندگی میں آپ کے پاس رہا، پھر آپ کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگیا اور آپ کی وفات کے بعد ام المومنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے پاس رہا۔[3] جمع قرآن کے دوسرے مرحلہ کے بعض نتائج: حروب ردہ میں بہت سے صحابہ کی شہادت کی وجہ سے قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ لا حق ہوا جس کے نتیجہ میں قرآن کی جمع و تدوین کا کام عمل میں آیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت حفاظ و علماء اپنے افکار و سلوک اور تلواروں کے ذریعہ سے اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کو بلند کرنے کے لیے جہاد و عمل میں سب سے پیش پیش رہتے تھے، چنانچہ یہ خیر امت تھے جنھیں لوگوں کے لیے وجود بخشا گیا تھا، لہٰذا بعد میں آنے والوں کو ان کی اقتدا اور پیروی کرنی چاہیے۔
[1] یعنی تمہارے پاس اور دوسروں کے پاس جو نوشتے موجود ہیں اور لوگوں نے جو یاد کر رکھا ہے اس کی مدد سے قرآن کو ایک مصحف میں مدون کر دو۔ [2] چوں کہ جمع قرآن کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ زبانی بھی ہو اور ضبط تحریر میں بھی ہو، اور یہ آیات ان دونوں شرائط کے ساتھ صرف ابو خزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ آیات کسی اور صحابی کو یاد نہ تھیں یا کسی اور کے پاس ضبط تحریر میں نہ تھیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں شرائط کے ساتھ صرف ابوخزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں جن کی گواہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے رکھا تھا۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جمع قرآن کے لیے اصل وہ نوشتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس محفوظ تھے، اور اس سے مزید دیگر صحابہ کے پاس جو نوشتے تھے اور سینوں میں محفوظ تھا اس سے مدد لی گئی اور اس طرح پورے کا پورا قرآن تو اتر کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا گیا۔ (مترجم) [3] البخاری (۴۹۸۶)۔