کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 268
لوگوںکو مقرر کریں جو پیچھے سے میری پشت پناہی کریں، میں بادشاہ کی طرف رخ کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے میرے ساتھ بہادروں کی ایک جماعت متعین کر دی، انہوں نے حکم فرمایا اور یہ جوان میرے پیچھے ہو گئے اور میں دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا بادشاہ کی طرف بڑھا، میری پشت پناہی کرنے والوں نے یہ سمجھا کہ میں بادشاہ کے پاس کوئی پیغام لے کر جا رہا ہوں، جب میں جرجیر کے قریب پہنچ گیا تو اس نے مجھ سے خطرہ محسوس کیا اور اپنے ٹٹو پر سوار بھاگ کھڑا ہوا، میں نے اس کا پیچھا کیا اور اپنے نیزے سے اس کو مار گرایا، اور پھر اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا، میں نے اس کا سر اٹھایا اور اپنے نیزے کی نوک پر نصب کر کے بلند آواز میں تکبیر پکاری جب بربروں نے یہ منظر دیکھا تو خوف زدہ ہو گئے اور جانوروں کی طرح بھاگ کھڑے ہوئے، مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، ان کو قتل کرتے رہے اور قیدی بناتے رہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو بہت سارا مال و متاع اور قیدی ہاتھ آئے یہ سب کچھ اس شہر میں ہوا جس کو سبیطلہ کہتے ہیں جو قیروان سے دو دن کی مسافت پر واقع ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ پہلا موقع تھا جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی شان نمایاں ہوئی اور وہ مشہور ہوئے۔[1] عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے جو کارنامہ انجام دیا وہ خطرات سے گھری ہوئی بلندیوں کی طرف امنگوں سے بھری ایک بلند پرواز تھی، جس کا ماضی میں تجربہ نہ تھا، اس وقت آپ کی عمر صرف ستائیس (۲۷) سال تھی۔ اس سے قبل آپ کی جانبازی کا اس طرح کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا تھا، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عظیم جانبازی کی طرف آپ نے کیسے پیش قدمی کی جب کہ ظن غالب بلکہ عرف عام میں یقین کی حد کو یہ بات پہنچتی ہے کہ اس میں ہلاکت ہی ہلاکت تھی؟ اس طرح کی جانبازیوں کے سلسلہ میں جو احتمالات ممکن ہو سکتے ہیں وہ دو باتیں ہو سکتی ہیں جو اس وقت اس جانباز کے دل و دماغ میں رہی ہوں گی: ٭ وہ اپنے حملہ میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، اور بربر کے بادشاہ جرجیر کا خاتمہ کر دیں گے، اور اس طرح اس کا لشکر بکھر جائے گا، جیسا کہ کفار کی عادت ہے، اور اس طرح مسلمانوں کو زبردست فتح و نصرت حاصل ہو گی، اور وہ اس خطر ناک معرکہ سے بچ جائیں گے جس سے مسلمان خوفزدہ ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ انہیں مقام شہادت عطا فرمائے گا، اس طرح وہ بلند ترین آرزو بر آئے گی، اور وہ اعلیٰ مقام حاصل ہو گا جس کی تمنا ہمیشہ صالحین کیا کرتے ہیں، اور اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، مزید برآں اس صورت میں کفار کا خوفزدہ ہونا اور ان کا مرعوب ہونا زیادہ قرین قیاس تھا، کیوں کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ مسلمان جن سے ان کا مقابلہ ہے وہ اسی نوعیت کے
[1] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۵۸)