کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 252
میں دنیا کی کوئی حیثیت نہ تھی، باوجودیکہ دنیا کے دروازے ان پر کھل چکے تھے، اس کی نعمتیں ان کو حاصل تھیں لیکن انہوں نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی۔ مسلمانوں کی تربیت اس فکر و عقیدہ پر ہوتی تھی کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اللہ نے انہیں اپنے دین کی نصرت، اقامت عدل، فضائل و مکارم کی نشر و اشاعت اور اللہ کے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ یہ ذمہ داری ان کا حقیقی مشن ہے، اللہ کی راہ میں جہاد اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اگر انہوں نے اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کی اور اپنے فرائض کی ادائیگی سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ان سے اپنی مدد روک لے گا اور آخرت میں اپنی رضا سے محروم کر دے گا، اور یہ سب سے بڑا خسران و گھاٹا ہو گا۔ اسی لیے وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بے تابی کے ساتھ نکل پڑے، اور کشتیوں پر سوار ہونے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگے، شاید ام احرام رضی اللہ عنہا کی حدیث ان کے دل و دماغ میں گھر کیے ہوئے تھی، جس نے انہیں اللہ کی راہ میں جہاد پر ابھارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سچ ثابت ہوئی۔ یہ واقعہ موسم سرما کے اختتام کے بعد ۲۸ھ مطابق ۶۴۹ء میں پیش آیا۔[1] مسلمان شام سے روانہ ہوئے اور عکا کی بندرگاہ سے سوار ہو کر قبرص کا رخ کیا، اور وہاں پہنچ کر مسلمان ساحل پر اترے، ام حرام آگے بڑھ کر اپنی سواری پر سوار ہونے لگیں، اسی اثنا میں سواری بدک گئی اور ام حرام رضی اللہ عنہا زمین پر گر پڑیں، ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وفات پا گئیں۔ [2] ام حرام رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد جزیرہ قبرص میں مسلمانوں نے ان قربانیوں کا ایک نشان چھوڑا جو انہوں نے دین کی نشر و اشاعت کے لیے پیش کیں، آپ کی قبر وہاں نیک خاتون کی قبر سے معروف ہوئی۔[3]
[1] جولۃ تاریخیۃ فی عصر خلفاء الراشدین ؍ د۔ محمد السند الوکیل ، ص (۳۵۶) [2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۵۹)لیکن البدایہ والنہایہ کی عبارت اس کے خلاف ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ فتح قبرص کے بعد جب وہاں سے واپسی ہونے لگی تو ام حرام رضی اللہ عنہا کے لیے خچر لایا گیا تاکہ وہ اس پر سوار ہو جائیں، آپ اس سے گر پڑیں اور گردن ٹوٹ گئی، پھر وفات پا گئیں، وہیں ان کی قبر ہے۔ یہاں مصنف کی عبارت اور البدایہ والنہایہ کے بیان کے مطابق ام احرام رضی اللہ عنہا کی وفات قبرص ہی میں ہوئی اور ان کو وہیں دفن کر دیا گیا، لیکن صحیح بخاری کی روایت اس کے خلاف ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: ((فلما انصرفوا من غزوتہم قافلین فنزلوا الشام فقربت الیہا دابۃ لترکبہا فصرعت فماتت۔)) (البخاری: حدیث نمبر ۲۷۹۹؍۲۸۰۰) ’’جب قبرص کی جنگی مہم سے واپس ہوئے اور شام کے ساحل پر اترے تو ام حرام رضی اللہ عنہا کے لیے سواری پیش کی گئی وہ اس سے گر کر وفات پا گئیں۔‘‘ اس روایت سے واضح ہے کہ ام حرام رضی اللہ عنہا کی وفات شام کے ساحل پر پہنچ کر ہوئی تھی، پس ایسی صورت میں قبرص کے بجائے شام میں آپ مدفون ہوئیں، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حالت میں دلیل ہے کہ ثواب کے اعتبار سے جہاد سے لوٹنے والا جہاد میں جانے والے کے حکم میں ہے۔ (الفتح : ۶؍۷۳) (مترجم) [3] جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین ص (۳۵۷)