کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 244
اور فرمایا: ’’رأس الادب آلۃ المنطق ہے، فعل کے بغیر قول میں کوئی خیر نہیں، باطن کے بغیر ظاہر میں کوئی خیر نہیں، جود و سخا کے بغیر مال میں کوئی خیر نہیں، وفاداری کے بغیر دوست میں کوئی خیر نہیں، ورع و تقویٰ کے بغیر فقہ میں کوئی خیر نہیں، اور اخلاص نیت کے بغیر صدقہ و خیرات میں کوئی خیر نہیں۔‘‘[1] اور فرمایا: ’’برواحسان کو اسے بھلا کر زندہ کرو۔‘‘[2] نیز فرمایا: ’’ہنسی کی کثرت ہیبت کو ختم کر دیتی ہے، مذاق کی کثرت مروت کو ختم کر دیتی ہے، جو کسی چیز کو لازم پکڑتا ہے وہ اس کو جان لیتا ہے۔‘‘[3] اور فرمایا: ’’ہماری مجلسوں کو کھانے اور عورتوں کے ذکر سے پاک رکھو، میں اس شخص کو ناپسند کرتا ہوں جو اپنی شرمگاہ اور پیٹ کی تعریف و توصیف میں لگا رہے۔ اور مروت یہ ہے کہ انسان کھانے کی چاہت کے باوجود کھانا ترک کر دے۔‘‘[4] اور فرمایا: ’’قیادت اور سرداری عام لوگوں کے ساتھ ہے، یعنی جس کی قیادت و سرداری کا چرچا عام لوگوں کی زبان پر نہ ہو تو خاص لوگوں میں اس کے چرچے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘[5] آپ انتہائی فصیح و بلیغ تھے۔[6] ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا: حمد و صلوٰۃ کے بعد! اے ازد اور ربیعہ کے لوگو! تم ہمارے دینی بھائی ہو اور رشتے میں ہمارے شریک ہو، نسبت میں ہمارے شقیق ہو، گھر میں ہمارے پڑوسی ہو، دشمن کے مقابلہ میں ہمارے بازو ہو۔ اللہ کی قسم بصرہ کے ’’ازد‘‘ کوفہ کے ’’تمیم‘‘ سے ہمیں زیادہ محبوب ہیں، اور کوفہ کے ’’ازد‘‘ شام کے ’’تمیم‘‘ سے ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔ اگر تمہارے سینوں میں حسد کی عداوت گھر کرے تو ہمارے نوجوانوں اور مال میں ہمارے اور تمہارے لیے وسعت ہے۔[7]
[1] تہذیب ؍ ابن عساکر (۷؍۱۹،۲۰) [2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۳۳۱) [3] وفات الاعیان و ابناء الزمان؍ ابن خلکان (۲؍۱۸۷) [4] وفیات الاعیان (۲؍۱۸۸) [5] قادۃ فتح السند و افغانستان ص (۳۰۹) [6] قادۃ فتح السند و افغانستان ص (۳۰۹) [7] قادۃ فتح السند و افغانستان ص (۳۰۹)