کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 237
کے لیے طخارستان، جوزجان، طالقان اور فاریان کے لوگ جمع ہو گئے، اور تیس ہزار کے تین لشکر تیار ہو گئے۔ اس کی اطلاع احنف رضی اللہ عنہ کو پہنچی، آپ نے لوگوں سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا۔ لوگوں کے خیالات مختلف رہے، اتفاق رائے نہ ہو سکا کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم مرو واپس ہو جائیں، کچھ کی رائے تھی کہ ابر شہر چلے جائیں، کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہیں ٹھہریں اور مزید کمک طلب کریں، کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمیں دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہے۔ شام کے وقت احنف رضی اللہ عنہ جائزہ لینے کے لیے لشکر میں نکلے، اور لوگوں کی گفتگو کان لگا کر سننے لگے۔ ایک خیمے سے آپ کا گزر ہوا کوئی ’’خزیرہ‘‘[1] پکا رہا تھا، یا آٹا گوندھ رہا تھا اور لوگ آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، دشمن کا ذکر چھڑا ہوا تھا۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ امیر کے لیے مناسب یہ ہے کہ صبح سویرے اچانک دشمن پر حملہ کر دیں اس سے دشمن مرعوب ہو کر شکست خوردہ ہو جائے گا۔ اس پر خزیرہ بنانے والے یا آٹا گوندھنے والے نے کہا: ’’اگر ہمارے امیر نے ایسا کیا تو یہ ان کی غلطی ہو گی اور تم غلط مشورہ دیتے ہو، کیا تم انہیں اس بات کا مشورہ دیتے ہو کہ وہ دیار غیر میں تھوڑی سی جماعت کے ساتھ اس عظیم لشکر پر صبح سویرے حملہ کر دیں۔ اگر انہوں نے ایک حملہ کر دیا تو ہم سب کو پیس کر رکھ دیں گے، البتہ صحیح رائے یہ ہے کہ مرغاب اور پہاڑی کے درمیان اپنا لشکر لے کر اتر پڑیں، مرغاب کو دائیں اور پہاڑی کو بائیں کر لیں، ایسی صورت میں دشمن زیادہ تعداد میں مقابلہ میں نہیں آسکتا، بلکہ اتنی ہی تعداد میں آسکتا ہے جتنی تعداد ان کے لشکر کی ہے۔‘‘ یہ بات سن کر احنف رضی اللہ عنہ اپنے خیمے کی طرف واپس ہو گئے، یہ بات ان کے دل میں بیٹھ گئی، اور اپنا لشکر لے جا کر اس جگہ ٹکا دیا۔ مرو کے لوگوں نے دشمن کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کی پیش کش کی۔ احنف رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ مشرکین سے مدد لوں، تم اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور اس عہد پر قائم رہو جو ہم نے تم سے کیا ہے، اگر ہم غالب آگئے تو تمھیں وہ حاصل ہو گا جس کا ہم نے تم سے عہد کیا ہے، اور اگر ہم مغلوب ہو گئے اور دشمن تم سے قتال کرنے لگے تو تم اپنا دفاع کرتے ہوئے ان سے قتال کرنا۔ ابھی نماز عصر کا وقت ہوا تھا کہ مشرکین نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور شام تک گھمسان کی جنگ چلتی رہی، احنف رضی اللہ عنہ ابن جوبہ اعرجی کا یہ شعر پڑھتے رہے: احق من لم یکرہ المنیۃ خزور لیس لہ ذریۃ [2] ’’جو موت کو ناپسند نہیں کرتا حقیقت میں وہ ایسا بہادر ہے جس کے پیچھے اولاد نہیں۔‘‘ ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ رات کا اکثر حصہ دشمن کے ساتھ لڑتے رہے پھر اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست فاش دی، مسلمانوں نے انہیں خوب قتل کیا اور قتل کرتے ہوئے ’’رسکن‘‘ پہنچ گئے جو قصر احنف سے بارہ فرسخ پر واقع ہے۔ ادھر مرو کا حاکم طے شدہ رقم ادا کرنے میں تاخیر کر رہا تھا تاکہ جنگ کے نتائج دیکھ لے، لیکن جب
[1] ایک قسم کا کھانا ہے جو چربی اور آٹے سے تیار کیا جاتا ہے۔ [2] تاریخ الطبری (۵؍۳۱۷)