کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 235
’’ہم ہی ان حدود کے والی و محافظ رہے ہیں، ہم راتوں میں ان حدود کی حفاظت میں تیر برساتے اور زخمی ہوتے رہے ہیں۔‘‘ اللہ کی توفیق اور پھر حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ جیسی شخصیات کی وجہ سے مسلمان یہ فتنہ دبانے میں کامیاب ہو گئے، آپ بھی اہل کوفہ کے ساتھ معرکوں میں شریک تھے، آپ نے حدود کے ان معرکوں میں سے تین میں حصہ لیا، آپ تیسرے معرکہ میں تھے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پیش آگئی۔[1] ۳۲ھ میں ابن عامر رضی اللہ عنہ کی فتوحات: اس سال عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے مرو، روذ، طالقان، فاریاب، جورجان اور طخارستان کو فتح کیا، آپ نے احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کو مرو، اور روذ روانہ کیا۔ آپ نے وہاں پہنچ کر ان کا محاصرہ کر لیا، وہ آپ کے مقابلہ کے لیے نکلے، لیکن مسلمانوں نے انہیں شکست دے کر ان کے قلعہ کی طرف لوٹنے پر انہیں مجبور کر دیا، وہ اپنے قلعہ پر چڑھ گئے اور کہا: عرب کے لوگو! ہم تمھیں جیسا دیکھ رہے ہیں تمہارے بارے میں کبھی ایسا سوچا نہیں تھا، جیسا ہم تمھیں دیکھ رہے ہیں اگر ہم تمھیں ایسا سمجھتے تو کیفیت کچھ اور ہی ہوتی، لہٰذا تم ہمیں موقع دو تاکہ آج ہم غور و فکر کر سکیں اور آپ لوگ اپنے معسکر میں لوٹ جائیں، چنانچہ احنف رضی اللہ عنہ اپنی فوج کو لے کر لوٹ آئے، جب صبح ہوئی تو محاصرہ کر لیا وہ لوگ بھی جنگ کی تیاری کر چکے تھے، اتنے میں عجمیوں میں سے ایک شخص شہریوں کو طرف سے خط لے کر نکلا اور کہا: میں پیغام رساں ہوں مجھے امان دیجیے، مسلمانوں نے اسے امان دے دی، وہ مرو کے حاکم کا پیغام رساں تھا، وہ اس کا بھتیجا اور ترجمان بھی تھا، اس نے خط پیش کیا۔ احنف رضی اللہ عنہ نے خط پڑھا تو اس میں تحریر تھا: ’’ہم اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں جس کے ہاتھ میں ملک ہیں، جس کی حکومت کو چاہتا ہے بدلتا ہے، جس کو چاہتا ہے ذلت کے بعد رفعت عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رفعت کے بعد پست کر دیتا ہے۔ آپ حضرات سے مصالحت کی طرف میں اس لیے بڑھ رہا ہوں کیوں کہ میرے دادا مسلمان ہو چکے تھے، اور آپ کے رسول کی کرامت و منزلت کا انہوں نے مشاہدہ کیا تھا، لہٰذا آپ حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ کو ایک دوسرے کے درمیان مصالحت کی دعوت دیتا ہوں، میں سالانہ آپ کو ساٹھ ہزار درہم خراج (ٹیکس) ادا کروں گا، بشرطیکہ شہنشاہ کسریٰ نے جو جاگیر میرے بڑے دادا کو دی تھی وہ مجھ سے نہ چھینی جائے، کیوں انہوں نے اس سانپ کو مار ڈالا تھا جس نے بہت سے لوگوں کو ڈس لیا تھا، اور آمد و رفت کے راستہ کو روک دیا تھا اس پر بطور انعام کسریٰ نے یہ جاگیر عطا کی تھی، اور یہ کہ میرے گھرانے میں سے کسی سے بھی خراج نہ لیا جائے اور ریاست و سرداری میرے گھرانے کے علاوہ دوسروں کو نہ دی جائے۔ اگر آپ نے ان شرائط کے ساتھ مصالحت منظور کر لی تو
[1] تاریخ الطبری (۵؍۳۱۱)