کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 231
اختیار کیا جو اسّی (۸۰) فرسخ کی دوری پر تھا، پھر ’’طَبَّسَین‘‘ کی طرف چلے، منزل مقصود ’’ابرشہر‘‘ تھا جو نیسا پور کا شہر ہے۔مقدمۃ الجیش پر احنف بن قیس تھے پھر آپ نے قہستان کا راستہ لیا اور ’’ابرشہر‘‘ پہنچ گئے وہاں ہرات کے لوگوں یعنی ہباطلہ سے مڈبھیڑ ہوئی، احنف بن قیس نے ان سے قتال کر کے انہیں شکست دے دی پھر ابن عامر رضی اللہ عنہما نیسا پور آگئے۔ [1] ایک روایت میں ہے کہ ابن عامر رضی اللہ عنہ ابرشہر میں اترے، اور اس کے نصف حصہ پر بزور قوت قبضہ کر لیا اور باقی نصف حصہ ’’کناری‘‘ کے قبضہ میں رہا اور نسا اور طوس کا نصف بھی اسی کے ہاتھ میں رہا، جس کی وجہ سے آپ’’مرو‘‘ نہ پہنچ سکے، لہٰذا آپ نے کناری سے مصالحت کر لی اور اس نے اپنے بیٹے ابوا لصلت بن کناری اور بھتیجے سلیم کو بطور رہن آپ کے حوالہ کر دیا، پھر آپ نے عبداللہ بن حازم کو ہرات کی طرف اور حاتم بن نعمان کو مرو کی طرف بھیجا، ابن عامر رضی اللہ عنہما نے کناری کے بیٹے اور بھتیجے کو اپنے ساتھ لیا، اور نعمان بن افقم بصریٰ کی طرف روانہ ہوئے پھر وہاں ان دونوں کو آزاد کر دیا۔[2] ابن عامر رضی اللہ عنہ نے ابرشہر کے ارد گرد مثلاً طوس، بیورد، نسا، حمران کو فتح کیا یہاں تک کہ سرخس پہنچ گئے، ابن عامر رضی اللہ عنہ نے اسود بن کلثم عدوی کو بیہق روانہ کیا جو ابرشہر کے علاقے میں پڑتا تھا ان دونوں کے درمیان سولہ فرسخ کا فاصلہ تھا، انہوں نے اسے فتح کر لیا اور خود اسود بن کلثوم عدوی نے جام شہادت نوش کر لیا۔ آپ بڑے دیندار اور صالح تھے۔ عبداللہ بن عامر العنزی رضی اللہ عنہ کے اصحاب عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو جب بصرہ سے کوچ کرنا پڑا تو آپ کہتے تھے کہ مجھے عراق کی کسی چیز پر اتنا افسوس نہیں جس قدر مجھے ہواجر کی پیاس، مؤذنوں کے جواب اور اسود بن کلثوم جیسے دوستوں کا افسوس ہے۔[3] ابن عامر رضی اللہ عنہ نے نیسا پور پر غلبہ حاصل کیا اور سرخس کا رخ کیا تو مرو والوں نے ان سے مصالحت کا مطالبہ کیا تو ابن عامر رضی اللہ عنہ نے حاتم بن نعمان باہلی کو ان کے پاس بھیجا انہوں نے مرو کے حاکم براز سے بائیس (۲۲) لاکھ پر مصالحت کر لی۔ [4] ۳۲ھ میں ’’باب‘‘ اور ’’ بَلَنْجَر‘‘ پر حملہ: امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ سلمان کو باب پر چڑھائی کے لیے روانہ کرو، اور عبدالرحمن بن ربیعہ کو جو باب پر مقرر تھے لکھا: لوگ تھک چکے ہیں لہٰذا رک جاؤ آگے نہ بڑھو، اور مسلمانوں کو جوکھم میں مت ڈالو مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ اور آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں، لیکن اس چیز نے عبدالرحمن کو ان کے عزائم سے نہ روکا، وہ بلنجر پر حملہ کرنے سے رک نہیں سکتے تھے، چنانچہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی
[1] تاریخ الطبری: (۵؍۳۰۵) [2] تاریخ الطبری (۵؍۳۰۶) [3] تاریخ الطبری: (۵؍۳۰۷) [4] تاریخ الطبری: (۵؍۳۰۷)