کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 210
’’تم میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘ یہ اضافہ خلفائے راشدین کی سنت میں سے ہے اور بلاشبہ عثمان رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میںسے ہیں۔ آپ نے اذان کے اضافہ میں مصلحت سمجھی تاکہ لوگوں کو نماز جمعہ کے وقت کے قریب ہونے سے آگاہ کر دیا جائے کیوں کہ مدینہ کی آبادی پھیل چکی تھی مسجد کی اذان کی آواز کا پہنچنا ممکن نہ رہا تھا اس لیے آپ نے اس سلسلہ میں اجتہاد کیا اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی موافقت کی اور اس پر عمل جاری رہا کسی نے مخالفت نہیں کی یہاں تک کہ خلافت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما اور خلافت بنو امیہ اور بنو عباس میں اس پر عمل ہوتا رہا اور آج تک اس پر عمل جاری ہے، لہٰذا باجماع مسلمین یہ سنت ہے۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اذان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازفجر میں وقت سے قبل پہلی اذان سے لیا تھا جو آپ نے سوئے ہوئے کو بیدار کرنے، قیام کرنے اور روزہ رکھنے والوں کو تیار کرنے کے لیے مشروع کیا تھا، لہٰذا آپ نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کی پیروی کی ہے اور آپ ہی کے طریقہ سے اخذ کیا ہے۔ البتہ اہل علم کا اس سلسلہ میں اختلاف ہے کہ آیا آپ نے اس کو جمعہ کے وقت سے قبل دلایا تھا جیسا کہ فجر میں ہوتا ہے یا اس کو دخول وقت کے بعد دلایا تھا؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رجحان ہے کہ یہ اذان دخول وقت کی اطلاع کے لیے تھی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’یہ بات ظاہر ہو گئی کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے دیگر نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے دخول وقت کی اطلاع کے لیے اس اذان کو ایجاد کیا تھا، اس سلسلہ میں آپ نے جمعہ کو باقی نمازوں کے ساتھ ملا دیا اور اس کی خصوصیت کو خطیب کے منبر پر تشریف فرما ہونے کے وقت کی اذان کے ذریعہ سے باقی رکھا اور اس کے اندر اصل سے معنی کا ایسا استنباط ہے جو اسے باطل قرار نہیں دیتا اور لوگوں نے جو جمعہ کے وقت سے قبل دعا، ذکر اور صلاۃ و سلام وغیرہ ایجاد کر لیا ہے تو یہ بعض علاقوں میں ہے اور بعض میں نہیں لیکن سلف صالحین کی اتباع ہی بہتر ہے۔‘‘[2] جن حضرات کی یہ رائے ہے کہ آپ نے یہ اذان دخول وقت سے قبل دلائی تھی ان کا کہنا ہے کہ اس سے مقصود فجر کی اذان اوّل کے طرز پر جمعہ اور اس کی طرف سعی کی اطلاع دینا ہے۔ لہٰذا اگر یہ دخول وقت کے بعد ہو
[1] حقبۃ من التاریخ؍ عثمان الخمیس ص (۸۸) یہاں یہ کہنا کہ کسی نے مخالفت نہیں کی صحیح نہیں خود صحابہ میں سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ دیکھیے: فتح الباری۔لہٰذا اس کو اجماعی مسئلہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جن حالات اور ظروف میں عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اذان کا حکم دیا تھا ان حالات میں اس پر عمل کیا جائے گا لیکن دور حاضر میں یہ حالات نہیں رہے۔ لاؤڈ اسپیکر کی ایجاد اور مساجد کی کثرت نے اس کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے لہٰذا اب اسی پر عمل ہو گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کی سنت رہی ہے۔ (مترجم) [2] فتح الباری (۴؍۳۴۵)