کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 155
کریں تو تم ان کی برائی سے بچو۔[1]
ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اپنے ایک غلام کے پاس سے گزرے جو اونٹنی کو چارہ دے رہا تھا، آپ کو اس چارہ میں ناپسندیدہ چیز نظر آئی، آپ نے اس غلام کی گوشمالی کر دی، پھر اپنے کیے پر نادم ہوئے اور غلام سے کہا: تم اپنا بدلہ لے لو، غلام نے انکار کیا، لیکن آپ نے اس وقت تک اس کو نہیں چھوڑا جب تک کہ اس نے آپ کی گوشمالی نہیں کر دی، اور آپ نے کہا خوب تیز گوشمالی کرو یہاں تک کہ آپ کو یقین ہو گیا کہ بدلہ پورا ہو گیا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا خوب بدلہ ہے آخرت کے بدلے سے قبل۔[2]
عبادت:
عثمان رضی اللہ عنہ بڑے ہی عبادت گزار تھے۔ مروی ہے کہ آپ نے حج کے ایام میں حجر اسود کے پاس ایک رکعت میں قرآن ختم کر دیا اور یہ آپ کی عادت تھی۔[3]
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اس آیت کریمہ
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ (الزمر: ۹)
’’بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو۔‘‘
کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔[4]
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کریمہ:
هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (76) (النحل: ۷۶)
’’کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ پر، برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مقصود عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘[5]
آپ کا معمول تھا کہ آپ جمعہ کی رات میں قرآن کی تلاوت شروع کرتے اور جمعرات کی رات میں ختم کر دیتے تھے۔[6]اور آپ برابر نفلی روزے رکھتے اور رات کے ابتدائی حصہ میں سوتے اور باقی رات قیام میں
[1] البخاری: ۶۹۵۔
[2] اخبار المدینۃ ؍ ابن شہبۃ (۳؍۲۳۶)
[3] الطبقات الکبریٰ (۳؍۷۶)۔ تاریخ الاسلام عہد الخلفاء؍ الذہبی (۴۷۶) یہ روایت مبالغہ سے خالی نہیں اور یہ ان احادیث نبویہ کے خلاف ہے جس میں رات دن یا تین دن سے قبل قرآن ختم کرنے سے روکا گیا ہے اور آگے جو ختم قرآن کے سلسلہ میں آپ کا معمول بیان کیا گیا ہے اس کے بھی منافی ہے۔ (مترجم)
[4] تفسیر ابن کثیر: ۴؍۴۷۔
[5] تفسیر ابن کثیر: ۲؍۵۷۹۔
[6] علوالہمۃ (۳؍۹۳)