کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 136
’’دنیا کی فکر دل میں ظلمت و تاریکی ہے اور آخرت کی فکر دل میں نور و روشنی ہے۔‘‘ ٭ آپ کی بلیغ حکمت کی باتوں میں سے یہ قول ہے: ((یکفیک من الحاسد انہ یغتمُّ وقت سرورک۔))[1] ’’حاسد کے سلسلہ میں تمہارے لیے اتنا کافی ہے کہ جب تم خوش ہوتے ہو وہ غمگین ہوتا ہے۔‘‘ ٭ آپ نے فتنہ کے ایام میں فرمایا: ((استغفر اللّٰه إن کنت ظلمت ، و قد عفوت إن کنت ظلمت۔))[2] ’’میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اگر میں نے ظلم کیا ہے اور اگر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے تو میں نے معاف کر دیا۔‘‘ ٭ آپ کی حکمت و موعظت کی باتوں میں سے یہ ارشاد ہے: ((إن لکل شی ء آفۃ، و لکل نعمۃ عاہۃ، وإن آفۃ ہذا الدین و عاہۃ ہذہ النعمۃ عیَّابون صغَّانون، یرونکم ما تحبون، و یسرون ما تکرہون، طغام مثل النعام۔))[3] ’’یقینا ہر چیز کے لیے آفت ہے، اور ہر نعمت کے لیے زوال ہے، اور یقینا اس دین کی آفت اور اس نعمت کا زوال عیب جو… تمہاری پسندیدہ چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں اور تمہاری نا پسندیدہ چیزوں کو چھپاتے ہیں، شتر مرغ کی طرح بے وقوف ہیں۔‘‘ ٭ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما جب افریقہ کو فتح کر کے مدینہ پہنچے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں خطاب کرنے کا حکم فرمایا۔ جب وہ اپنے خطاب سے فارغ ہوئے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((انکحوا السناء علی آبائہن و اخوتہن، فإنی لم ار فی ولد أبی بکر الصدیق أشبہ بہ من ہذا۔))[4] ’’خواتین سے شادیاں ان کے آباء و اجداد اور بھائیوں کو دیکھ کر کیا کرو، میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں اس نوجوان سے زیادہ ان کے مشابہ نہیں پایا۔‘‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما تھیں، عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شجاعت و بہادری اور فصاحت و بلاغت میں اپنے نانا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مشابہ تھے۔[5]
[1] مجمع الامثال؍ المیدانی (۲؍۴۵۳) [2] تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص (۱۷۱) [3] مجمع الامثال؍ المیدانی (۲؍۴۵۳) [4] البیان والتبیین (۲؍۹۵) [5] فرائد الکلام ص (۲۷۱)