کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 117
فرمایا: لوگوں نے اپنا معاملہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حوالے کر رکھا ہے۔[1] ۳۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے شریک بن عبداللہ القاضی سے روایت نقل کی ہے، فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا، اگر وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ افضل کسی کو سمجھ رہے ہوتے تو گویا انہوں نے دھوکا دیا۔ پھر ابوبکر نے عمر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ مقرر کیا انہوں نے عدل و حق کو لوگوں میں نافذ کیا، پھر جب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے لگے تو چھ افراد پر مشتمل شوریٰ بنا دی، وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جمع ہو گئے، اگر وہ عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ افضل کسی کو سمجھتے ہوتے تو گویا انہوں نے ہم کو دھوکا دیا۔[2] مذکورہ بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی ہی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ خلافت کے زیادہ مستحق عثمان رضی اللہ عنہ ہی ہیں، کیوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے علم میں بعض وہ نصوص تھے جن میں اس بات کی طرف اشارہ موجود تھا کہ خلافت نبوت کی ترتیب میں فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کا نمبر ہو گا، اور وہ جانتے تھے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد لوگوں میں مطلقاً سب سے افضل عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔[3] ۴۔ ابن سعد نے نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا گیا تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے لوگوں میں جو سب سے افضل بچے تھے ان کو خلیفہ بنایا ہے اور افضل کو اختیار کرنے میں ہم نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔[4] ۵۔ حسن بن محمد الزعفرانی کا بیان ہے کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگوں نے بالاجماع ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد چھ افراد پر مشتمل شوریٰ تشکیل دی، اور انہیں حکم دیا کہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ منتخب کر لیں، شوریٰ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کر لیا۔[5] ابو حامد محمد المقدسی نے امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے: جان لو امام حق عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ ہیں، کیوں کہ شوریٰ نے خلیفہ کے انتخاب کو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا، اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے آپ کو خلیفہ منتخب کر لیا، اور صحابہ نے آپ کی رائے کو درست قرار دیتے ہوئے اس پر اجماع کر لیا، اور عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حق کی راہ پر قائم رکھا، عدل و انصاف کو عام کیا، یہاں تک کہ جام شہادت نوش کر لیا۔[6]
[1] کتاب الامامۃ والرد علی الرافضۃ ص: ۳۰۶۔ [2] میزان الاعتدال فی نقد الرجال؍ محمد بن عثمان الذہبی (۲/۲۷۳)(یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کو خلیفہ مقرر کیا اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل عثمان رضی اللہ عنہ تھے اس لیے ان کو خلیفہ بنایا گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم امت کو دھوکا دینے والے نہ تھے۔ )(مترجم) [3] عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام؍ د۔ناصر بن علی عایض حسن الشیخ(۲؍۶۶۶) [4] الطبقات الکبریٰ: ۳؍۶۳۔ [5] مناقب الشافعی؍ البیہقی: ۱؍۴۳۴۔۴۳۵۔ [6] الردعلی الرافضۃ ،ص (۳۱۹۔۳۲۰)