کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 116
میں جو کرنے والا تھا وہ پہلے ہی ڈال دیا تھا۔[1] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس روایت کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تفضیل کے سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جو معمول تھا اس کی خبر دی گئی ہے، کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل مانتے تھے، پھر عمر رضی اللہ عنہ اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ کو، اور یہ بھی مروی ہے کہ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچتی تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نکیر نہیں فرماتے تھے۔ پس ایسی صورت میں گویا یہ تفضیل نص سے ثابت ہے، ورنہ کم از کم مہاجرین و انصار کے درمیان دور نبوی میں بلا نکیر جو معمول و مشہور رہا اس سے ثابت ہے، اور صحابہ و تابعین کے اس طرز عمل سے ثابت ہے جو عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوا، یعنی سب نے بغیر کسی رغبت و رہبت کے عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر خلافت کی بیعت کی اور ان میں سے کسی نے بھی اس تولیت کا انکار نہ کیا۔[2] اس سلسلہ میں مذکورہ تمام نصوص قوی دلیل ہیں، ان میں عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی احقیت کی طرف اشارہ موجود ہے اور یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے، اس سلسلہ میں عاملین کتاب و سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، کتاب و سنت پر عمل کرنے والے سعادت مندوں کا یہ گروہ، اہل سنت و الجماعت ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی احقیت خلافت کا عقیدہ رکھے اور مکمل طور پر ان نصوص کو تسلیم کرے جو اس پر دلالت کرتی ہیں۔[3] ۶۔عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسی طرح ان کے بعد ان کے نقش قدم پر چلنے والے اہل سنت و الجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ عثمان بن عفان، عمر رضی اللہ عنہما کے بعد خلافت نبوت کے سب سے زیادہ مستحق تھے، کسی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ سب نے اس کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ آپ شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد مطلقاً سب سے افضل ہیں۔ عثمان کی عمر رضی اللہ عنہما کے بعد احقیت خلافت پر اجماع بہت سے علمائے حدیث وغیرہم نے نقل کیا ہے۔[4] ۱۔ ابن ابی شیبہ نے حارثہ بن مضرب سے روایت کی ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں حج کیا تو لوگوں کو دیکھا کہ انہیں اس سلسلہ میں کوئی شک نہیں تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ہونے والے خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔[5] ۲۔ ابو نعیم اصفہانی نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا تھا، میرے گھٹنے عمر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے سے لگ رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے لوگ کس کو امیر بنائیں گے؟ آپ نے
[1] عقیدۃ اہل السنۃ (۲؍۶۶۴) [2] منہاج السنۃ النبویۃ ؍ ابن تیمیۃ (۳؍۱۶۵) [3] عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام ؍ د۔ناصر بن علی عایض حسن الشیخ : ۲؍۶۶۴۔ [4] عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ: ۲؍۶۶۵۔ [5] المصنَّف: ۱۴؍۵۸۸۔