کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 103
’’پھر تم حق کو اختیار کرو اور اس کے لیے سختیوں کو برداشت کرو۔‘‘ ((واجعل الناس عندک سواء ، لا تبال علی من وجب الحق۔)) ’’لوگوں کو اپنی نگاہ میں برابر رکھنا، جس پر حق عائد ہو اس سے حق وصول کرنے میں کسی کی پروا نہ کرنا۔‘‘ ٭ ہر طرح کے ظلم سے اجتناب خاص کر ذمیوں کے ساتھ، کیوں کہ رعایا کے درمیان خواہ مسلم ہوں یا ذمی اقامت عدل مطلوب ہے، تاکہ تمام لوگ اسلام کے عدل سے مستفید ہوں۔ چنانچہ فرمایا: ((واوصیک الا ترخص لنفسک ولا لغیرک فی ظلم اہل الذمۃ۔)) ’’اور میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں پر ظلم کے سلسلہ میں نہ تو اپنے آپ کو اور نہ دوسروں کو رخصت دینا۔‘‘ ٭ دیہاتیوں کا اہتمام اور ان کی نگہداشت۔ چنانچہ فرمایا: ((واوصیک باہل البادیۃ خیرا فانہم اصل العرب ومادۃ الاسلام۔)) [1] ’’اور میں تم کو دیہات والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں وہ عرب کی اصل اور اسلام کا خام مال ہیں۔‘‘ ٭ عمر رضی اللہ عنہ کی اس وصیت کے ضمن میں یہ بات بھی تھی کہ کسی عامل کو سال بھر سے زیادہ باقی نہ رکھنا البتہ اشعریوں کو چار سال باقی رکھنا۔[2] شوریٰ کی ادارت میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا منہج ۱۔ مشاورت کے لیے مجلس شوریٰ کا اجتماع: ابھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تدفین سے لوگ فارغ ہی ہوئے تھے کہ شوریٰ اور اعلیٰ ریاستی کونسل کے ممبران نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اپنا اجتماع منعقد کرنے میں جلدی کی تاکہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی زندگی میں جو عظیم ترین مسئلہ رونما ہوا ہے اس کا حل تلاش کریں، ممبران نے آپس میں گفت و شنید کی اور اپنی آراء و تجاویز پیش کیں، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک کلمہ پر متفق ہو گئے جسے خاص و عام تمام مسلمانوں
[1] الخلیفۃ الفاروق؍ العالی، ص (۱۷۳۔۱۷۵) [2] عصر الخلافۃ الراشدۃ: ۱۰۲ لیکن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایۃ والنہایۃ: ۷؍۱۴۵ میں مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں اس اجتماع کے منعقد ہونے کو ترجیح دی ہے۔ (مترجم)