کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 101
۴۔ اقتصادی اور مالی پہلو: ٭ عدل و انصاف کے ساتھ لوگوں کے درمیان مال کی تقسیم کا اہتمام اور ہر اس معاملہ کی بیخ کنی جس سے مال ایک خاص طبقہ کے اندر محصور ہو کر رہ جائے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: ((ولا تجعل الاموال دولۃ بین الاغنیاء منہم۔)) ’’مال کو اغنیاء کے درمیان محصور نہ کر دینا۔‘‘ ٭ ذمیوں کو ان کی طاقت سے زیادہ مکلف نہ کرنا جب کہ وہ حکومت کے مالی حقوق کو ادا کر رہے ہوں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: ((ولا تکلفہم فوق طاقتہم إذا أدوا ما علیہم للمؤمنین۔)) ’’ان کی طاقت سے زیادہ کا ان کو مکلف نہ کرنا جب کہ وہ ان پر مومنوں کے جو حقوق ہیں اسے ادا کر رہے ہوں۔‘‘ ٭ لوگوں کے مالی حقوق کا تحفظ اور اس سلسلہ میں عدم تفریط اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر عائد کرنے سے اجتناب۔ چنانچہ فرمایا: ((ولا تحمل منہم إلا عن فضل منہم۔)) ’’ان سے وہی وصول کرنا جو ان سے زائد ہو۔‘‘ اور فرمایا: ((أن تأخذ حواشی اموالہم فترد علی فقراء ہم۔)) ’’تم ان کے بچے ہوئے مال میں سے لینا اور پھر انہی کے فقراء میں لوٹا دینا۔‘‘[1] ۵۔ اجتماعی پہلو: ٭ رعیت کا اہتمام اور ان کے امور کی خبر گیری، ان کی ضروریات کی تکمیل اور مال فے اور عطیات میں سے ان کے حقوق کی ادائیگی۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((ولا تحرمہم عطایاہم عند ملحہا۔)) ’’ان کو ان عطیات سے محروم نہ کرنا۔‘‘
[1] الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب؍ العانی صفحہ: ۱۷۴۔۱۷۵۔