کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 98
صلح حدیبیہ کے موقع پر جو کچھ ہوا اس میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مؤقف کسی شک اور تردد پر مبنی نہ تھا، کیونکہ اسلام کی تائید ونصرت میں آپ کی قوت وشجاعت مشہور ہے، بلکہ آپ کو حقیقت حال کی وضاحت اور کافروں کی ذلت مطلوب تھی۔ [1] اور جب صلح کی حکمت آپ کے سامنے واضح ہوگئی تو حدیبیہ کے موقع پر اپنے نظریہ پر شرم سار ہوئے اور فرمایا: میں نے اس دن جو کیا اور کہا تھا اس کے خوف سے برابر صدقہ کرتا ہوں، نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہوں اور غلام آزاد کرتا ہوں، اس امید پر کہ یہ باعث خیر بن جائیں۔ [2] اور شعبان ۷ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو تیس (۳۰) آدمیوں کا قائد بنا کر وادئ ’’ تُرْبَۃ‘‘[3] سے ہوتے ہوئے قبیلہ ہوازن کی پشت پر حملہ آور ہونے کو کہا۔ یہ وادی مکہ سے چار مراحل کی دوری پر ’’فلا‘‘ کے کنارے سے ہو کر گزرتی ہے، چنانچہ آپ اپنے ساتھ بنو ہلال کے ایک رہنما کو لے کر نکلے۔ [4] آپ رات میں چلتے اور دن میں چھپے رہتے، لیکن ہوازن والوں کو خبر مل گئی اور وہ سب بھاگ نکلے۔ عمر رضی اللہ عنہ ان کے گھروں تک گئے، لیکن کسی کو نہ پایا، پھر واپس مدینہ لوٹ آئے۔ [5] ایک روایت میں ہے کہ ہلالی رہنما نے کہا: ’’کیا آپ دوسرے محاذ یعنی ’’خَثْعَم‘‘سے محاذ آرائی کا ارادہ نہیں رکھتے، جن کو آپ نے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ان کے شہر بھی قحط زدہ ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان سے محاذ آرائی کا حکم نہیں دیا۔ آپ نے ’’تربہ‘‘ سے ہو کر ہوازن سے جنگ کرنے کا مجھے حکم دیا ہے۔ [6] اس سریہ سے ہمارے سامنے تین عسکری نتائج سامنے آتے ہیں: ۱: عمر رضی اللہ عنہ قیادت کے اہل تھے ، اگر آپ کے اندر اس کی صلاحیت نہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مسلمانوں کے کسی ایسے سریہ کی قیادت نہ سونپتے جو بے حد پر خطر علاقہ اور قوی ترین وغیرت مند عربی قبیلہ کی ملکیت تھی۔ ۲: عمر رضی اللہ عنہ جو دن میں چھپے رہتے اور رات میں چلتے تھے، اچانک حملہ آور ہونے کے اصول سے بخوبی واقف تھے جو علی الاطلاق جنگی اصولوں میں سے اہم ترین اصول ہے، آپ کی یہی جنگی سیاست آپ کے دشمنوں کو چونکا دیتی اور اسے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیتی، اور اس طرح مختصر سی فوج کے ساتھ
[1] السیرۃ النبویۃ/ ابن ہشام: ۳/ ۳۴۶ [2] صلح الحدیبیۃ/ محمد أحمد باشمیل، ص: ۲۷۰ [3] القیادۃ العسکریۃ فی عہد رسول اللہV، ص: ۴۹۵ [4] غزوۃ الحدیبیۃ/ أبوفارس، ص: ۱۳۴۔ ۱۳۵