کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 97
ضائع نہ کرے گا۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ ہم سے کہتے نہ تھے کہ ہم خانہ کعبہ (بیت اللہ) جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے، لیکن کیا میں نے کہا تھا کہ اسی سال؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم اس کے پاس جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔ عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں ابوبکر کے پاس آیا اور ان سے کہا: اے ابوبکر! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول ہیں۔ میں نے کہا: کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، مسلمان ہیں۔ میں نے کہا: کیا وہ مشرک نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، ایسے ہی ہے۔ میں نے فرمایا: پھر کیوں ہم اپنے دین میں رسوائی برداشت کریں؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے اعتراض اور مخالفت سے باز آنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے جو حکم دیا ہے وہی حق ہے، ہم حکم الٰہی کی مخالفت ہرگز نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔ [1] ابوجندل رضی اللہ عنہ کے دردناک اور دل دوز واقعہ کے بعد صحابہ نے دوبارہ صلح پر اعتراض کیا اور وہ ایک وفد کی شکل میں، جس میں عمر بن خطاب بھی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفعات پر نظر ثانی اور دوبارہ صلح کا مطالبہ لے کر گئے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت، صبر، بردباری اور قوت دلیل کے ذریعہ سے صلح کی عظمت سے صحابہ کو مطمئن کردیا اور بتایا کہ یہ صلح مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور یہ ان کے لیے مدد ہے۔ [2] نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ابوجندل جیسے کمزوروں کے لیے عنقریب کوئی کشادگی اور راستہ نکالے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے مطابق حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ اس واقعہ میں عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بدنیتی سے) پاک اعتراض ومخالفت کا احترام کرنا سیکھا، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے دور خلافت میں مصالح عامہ کے لیے بہترین رائے دینے پر صحابہ کو ہمت دلاتے تھے۔ [3]اسلامی معاشرہ میں آزادی رائے کا احترام ہے، اسلامی معاشرہ میں ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرے، اگرچہ یہ رائے کسی حاکم یا خلیفہ کے مؤقف پر نقد و اعتراض ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمان فرد کا یہ حق ہے کہ وہ مکمل امن وامان کے ماحول میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرے، وہاں کوئی دہشت اور جبر نہیں ہوتا جو فکر وآزادی کو دبا دے۔ عمر رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث ومباحثہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی رائے یا نقطۂ نظر میں حاکم وقت سے حجت ومعارضہ کرنا ایسا جرم نہیں ہے جو باعث سزا ہو اور معترض کو جیل کی تاریکیوں میں دھکیل دینے کا باعث بنے۔ [4]
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۵۹۶۔ [2] السیرۃ النبویۃ/ ابن ہشام: ۲/ ۲۲۸ ۔ أخبار عمر، ص:۳۴ [3] من معین السیرۃ/ الشامی، ص: ۳۳۳ [4] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۱۸۲۔ تاریخ الطبری: ۲/ ۶۳۴