کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 95
نہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ [1] اور ایک روایت میں ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ عباد بن بشر کو حکم دیں کہ وہ اسے قتل کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! جب لوگ کہنے لگیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے تب کیا کرو گے؟ نہیں، بلکہ لشکر کو کوچ کرنے کا حکم دے دو اور یہ ایسی گھڑی تھی کہ عموماً اس وقت اللہ کے رسول کوچ نہ کرتے تھے۔ پھر لوگوں نے کوچ کیا۔ [2] اس طرح سے نبوی رہنمائی اور مواقف سے عمر رضی اللہ عنہ نے مصالح اور مفاسد میں تمیز کی فہم وبصیرت پائی، جیسے کہ یہ فہم وبصیرت اس فرمان نبوی سے بالکل واضح ہے: (( فَکَیْفَ یَا عُمَرُ إِذَا تَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلْ أَصْحَابَہٗ۔)) [3] ’’اے عمر جب لوگ کہنے لگیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے تب کیا کرو گے؟‘‘ اس نبوی رہنمائی میں سیاسی شہرت کی مکمل حفاظت اور قوم کو داخلی انتشار سے محفوظ رکھنے کی حکمت نمایاں ہے۔ نیز ان دونوں شہرتوں میں بڑا فرق ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے صحابہ کی شدید محبت کا ذکر خیر کریں اور خود اپنے قائد ابوسفیان کی زبانی اس کی تائید اس طرح کریں کہ میں نے کسی کو کسی سے اس طرح محبت کرتے نہیں دیکھا جس طرح محمد کے صحابہ محمد سے محبت کرتے ہیں [4] اور دوسری طرف یہ پروپیگنڈہ ہو کہ محمد اپنے صحابہ کو قتل کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کو عام کرنے کے لیے بڑی سازشوں کی ضرورت تھی، جو مدینہ میں مسلمانوں کی داخلی صف میں دشمنوں کی شمولیت کی شکل میں پوری ہوسکتی تھی، کیونکہ وہ اس سے بالکل مایوس ہوگئے تھے کہ اب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے والہانہ لگاؤ اور عظیم قربانیوں کے سامنے ہم کچھ کرسکیں۔ [5] غزوہ خندق کے بارے میں جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے سورج ڈوبتے ڈوبتے نماز پڑھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور میں نے، اللہ کی قسم! ابھی پڑھی ہی نہیں۔ پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ’’بطحان‘‘[6] گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا اور سورج
[1] صحیح البخاری/ المغازی، حدیث نمبر: ۴۰۴۳، السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: ۲/ ۳۹۲ [2] السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: ۲/ ۳۹۲ [3] صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق، ص: ۱۸۹ [4] السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: ۲/ ۳۹۲۔