کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 94
فرمایا: تم اسے جواب دو۔ صحابہ نے کہا: ہم کیا کہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو: ((اَللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلَّ)) اللہ سب سے بلند وبزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا: ((إِنَّ لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ۔))ہمارے لیے ’’عزیٰ‘‘ ہے، اور تمہارے لیے ’’عزیٰ‘‘ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جواب دو۔ صحابہ نے کہا: ہم کیا کہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو ((اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَالَکُمْ))اللہ ہمارا مالک ومددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔ ابوسفیان نے کہا: آج کا دن بدر کا بدلہ ہے اور جنگ مثل ڈول ہے۔ تم لاشوں کو مثلہ کیا ہوا پاؤ گے اس کا میں نے حکم نہیں دیا ہے، تم مجھے برا بھلا مت کہنا۔ [1] ایک روایت میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہم تم برابر نہیں، ہمارے مقتول جنت میں اور تمہارے مقتول جہنم میں ہوں گے۔ [2] تو ابوسفیان نے کہا: اے عمر میں تم کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا ہم نے محمد کو قتل کردیا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، وہ اب بھی تمہاری بات سن رہے ہیں۔ اس نے کہا: تم میرے نزدیک ابن قمئہ سے زیادہ سچے اور نیک ہو۔ ابن قمئہ نے لوگوں سے کہا ہے کہ میں نے محمد کو قتل کر دیا ہے۔ [3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ابوسفیان کا پوچھنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مشرکین دیگر مسلمانوں کے مقابلے میں ان افراد کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، وہ جانتے تھے کہ یہی لوگ اسلام کے اصل محافظ ہیں، انہی کی وجہ سے اسلامی عمارت، اسلامی مملکت، اور اسلامی نظام کے ستون قائم ہیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان افراد کی موت کے بعد پھر دوبارہ اسلام قائم نہ ہوسکے گا۔ شروع میں ابوسفیان کی تحقیر کے لیے اس کا جواب دینے سے خاموشی اختیار کی گئی، لیکن جب وہ خوشی سے بدمست ہوگیا اور غرور سے بھر گیا تب صحابہ نے اسے حقیقت حال سے خبردار کیا اور مکمل پامردی سے اس کا جواب دیا۔ [4] غزوہ بنو مصطلق میں بھی فاروق رضی اللہ عنہ کا منفرد مؤقف تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہم مجاہدین میں سے تھے، ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات ماری، انصاری نے کہا: اے انصار! مدد کے لیے آؤ، اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرو! مدد کے لیے آؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سن کر فرمایا: ’’دَعُوْہَا فَاِنَّہَا منتنۃ‘‘ اسے چھوڑ دو، یہ ناپاک بدبودار ہے۔ جب عبداللہ بن ابی نے اس واقعہ کو سنا تو کہا: کیا واقعی مہاجرین نے ایسا کیا ہے؟ سن لو! اللہ کی قسم، اگر ہم مدینہ واپس گئے تو باعزت لوگ ذلیلوں کو یقینا نکال دیں گے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس منافق کی گردن مارنے کی اجازت دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ
[1] صحیح السیرۃ النبویۃ/ علی محمد الصلابی، ص: ۶۰ [2] السیرۃ النبویۃ، عرض واقع وتحلیل أحداث/ الصلابی، ص: ۸۶۸