کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 93
نازل ہوتی تھی ہم اسے جھٹلاتے تھے۔ اور (آپ نے جو کہا) یہ ایسا معاملہ جسے میرے اور صفوان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کی قسم، اللہ نے آپ کو جو خبر دی میں اسے بخوبی جان گیا، پس شکر ہے اللہ تعالیٰ کا جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی، اور یہاں لایا۔ پھر آپ نے کلمۂ شہادت کا اقرار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَقِّہُوْا أَخَاکُمْ فِیْ دِیْنِہٖ وَعَلِّمُوْہُ الْقُرْآنَ وَأَطْلِقُوْا أَسِیْرَہٗ۔)) ’’اپنے بھائی کو دین سکھاؤ، قرآن پڑھاؤ، اور اسے قید سے آزاد کردو۔‘‘ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ [1] اس واقعہ سے حفاظت وسلامتی کے بارے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایسا بلند احساس ظاہر ہوتا ہے جس میں آپ منفرد تھے۔ آپ عمیر بن وہب کی آمد دیکھ کر چونک گئے اور خبردار کیا اور علی الاعلان کہا کہ یہ شیطان ہے، کسی بری نیت سے آیا ہے، کیونکہ آپ کے سامنے اس کے ماضی کے ریکارڈ موجود ومعلوم تھا، وہ مکہ میں مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا، اسی نے غزوۂ بدر میں مسلمانوں سے جنگ لڑنے پر (کافروں کو) ابھارا تھا اور مسلمانوں کی تیاریوں کے بارے میں اس نے خود معلومات فراہم کی تھیں، اسی لیے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے اسباب کو فوراً اختیار کیا اور ایک طرف خود عمیر کی تلوار کے پٹکے کو سختی سے پکڑ لیا جو اس کی گردن سے بندھا ہوا تھا۔ اس طرح اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہونے کی نیت سے اس کی تلوار کو استعمال میں لانے کے ممکنہ خطرات کو بے کار کردیا، اور دوسری طرف دیگر صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ونگرانی پر لگا دیا۔[2] ۲۔ غزوۂ احد، بنو مصطلق اور خندق: بلند ہمت رہنا اور ذلت ورسوائی کی موت کو نہ برداشت کرنا اگرچہ شکست کی علامتیں صاف ہی کیوں نہ ہوں، فاروق رضی اللہ عنہ کے خاص مجاہدانہ اوصاف میں سے ہیں، جیسا کہ دوسرے بڑے اسلامی معرکہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک ہوئے، یعنی غزوۂ احد میں پیش آیا۔ لڑائی جب اختتام کو پہنچ رہی تھی، ابوسفیان کھڑا ہوا اور کہا: کیا محمد زندہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) فرمایا: تم جواب نہ دو۔ اس نے پھر کہا: کیا مسلمانوں میں ابن ابی قحافہ زندہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جواب نہ دو۔ اس نے کہا: کیا مسلمانوں میں ابن خطاب زندہ ہے؟ پھر اس نے خود ہی کہا: یہ سب قتل کردیے گئے، اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ خود کو قابو میں نہ رکھ سکے اور کہا: اے اللہ کے دشمن! تم نے جھوٹ کہا۔ اللہ نے تیری رسوائی کا سارا سامان باقی رکھا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: ’’أعل ہبل‘‘ ھبل کی جے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] صحیح السیرۃ النبویۃ/ علی محمد محمد الصلابی، ص: ۲۵۹