کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 86
و حوادث کے مطابق تدریجاً رفتہ رفتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے صحابہ کو پڑھ کر سناتے تھے، انہوں نے اس کے معانی کو یاد کیا، فہم وبصیرت میں گیرائی سے کام لیا اور اس کی بنیادی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ پس اس فہم وبصیرت کا ان کی ذات، دل ودماغ اور روح پر گہرا اثر تھا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جو تعلیم و تربیت کے میدان میں قرآنی منہج وفکر سے ہم آہنگ ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ اور آپ کے حیات وکارناموں کو پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس صاف وشفاف فیضانِ الٰہی پر تھوڑی دیر ٹھہر کر غور کرے جس نے صلاحیتوں کو نمو بخشی، عبقری ہستیوں کو نکھارا اور قوم کی ثقافت کو ترقی عطا کی، اس فیضانِ الٰہی سے میری مراد قرآنِ مجید ہے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد ہی سے حفظ قرآن اور اس کے معانی ومفاہیم پر غور وتدبر کرنے کے حریص تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہتے، جو آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتیں انہیں آپ سیکھ لیتے، اس طرح آپ نے تمام آیات اور سورتوں کو حفظ کرلیا۔ آپ کو بعض آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائیں اور آپ ان آیات کو قراء ت نبوی کی روایت پر ہی پڑھنے کے حریص رہے۔ [1] آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ بعض آیات کے نزول کے فوراً بعد سب سے پہلے ان آیات کو آپ ہی نے سنا، اپنے محفوظات (یادداشت) کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھنے کی کوشش کی۔ خلاصہ یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ نے قرآنی منہج پر تربیت پائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مربی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر رضی اللہ عنہ کی اوّل ملاقات ہی قرآنی تربیت کا آغاز ہے۔ اس ملاقات کے بعد آپ کی زندگی میں بالکل انوکھی تبدیلی ہوئی اور یکایک ہدایت سے سرفراز ہوئے، تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکل آئے، ایمان کو گلے لگایا اور کفر کو روند دیا۔ اپنے نئے دین اور آسان عقیدہ کے لیے اس راستہ کی تمام مشقتوں اور مشکلات کو برداشت کرنے کے عادی ہوگئے۔ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہی آپ کے اسلام لانے کا اصل محرک تھی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں جاذبیت اور دوسروں پر اثر انداز ہونے کی قوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنایا تھا اور عظمت سے ہمیشہ محبت کی جاتی ہے، لوگ اسے پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور پسندیدگی ومحبت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس سے چمٹ جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ عظمتوں کے ساتھ ایک بڑی عظمت یہ ہے کہ آپ اللہ کے رسول اور اس کی طرف سے وحی کے حامل اور لوگوں تک اسے پہنچانے والے ہیں۔ مرد مومن کے وجدان وشعور کو آپ کی طرف مائل کرنے میں اس کا بڑا گہرا اثر ہے۔ وہ صرف آپ کی ذات کی بنیاد پر آپ سے محبت نہیں کرتا، جس طرح کہ دیگر اکابرین سے محبت کی جاتی
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أحمد أبوالنصر، ص: ۸۷۔ [2] عمر بن الخطاب، د/ محمد أحمد أبوالنصر، ص: ۸۷