کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 846
آخر میں اس کتاب کی تالیف سے فارغ ہوتے ہوئے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ الٰہی میری اس حقیر سی کوشش کو شرف قبولیت عطا فرما اور اس سے استفادہ کرنے کے لیے اپنے بندوں کا سینہ کشادہ کردے اور اپنے احسان و کرم سے اس میں برکت عطا فرما، آمین ﴿مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (2)(فاطر: ۲) ’’اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے سو اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں، اور وہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘ اللہ کے فضل وکرم اور جود و سخا کا صدق دل سے اعتراف کرتے ہوئے اس کے سامنے لرزاں دل و زبان سے دست بدعا ہوں، وہی احسان کرنے والا، عزت دینے والا، مدد گار اور توفیق سے نوازنے والا ہے، ہر حال میں اس کا شکر گزار ہوں، اللہ کے اسمائے حسنیٰ اور اس کی صفات علیا کا واسطہ دے کر اللہ سے عرض کناں ہوں کہ اللہ مجھے اس عمل میں اپنی رضا کا طالب بنا، اسے اپنے بندوں کے لیے نفع بخش ثابت کر، ہر حرف کے بدلے مجھے بہتر بدلہ عطا فرما، اسے میری نیکیوں کے ترازو میں رکھنا اور اس حقیر کو کوشش کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں میرے جن احباب نے میری مدد کی ہے انہیں ثواب سے نواز دے، اپنے تمام قارئین بھائیوں سے بھی میری یہی درخواست ہے کہ اپنے اس بھائی کو اپنی نیک دعاؤں میں نہ بھولیں گے۔ ﴿رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (19)(النمل: ۱۹) ’’اے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر، اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل لے۔‘‘ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ، اَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ بندۂ ناچیز علی محمد محمد الصلابی ۱۳، رمضان ۱۴۲۲ھ مطابق ۲۸ نومبر۲۰۰۱ء 
[1] تاریخ الطبری، :۵/۲۱۴، الأیام الأخیرۃ فی حیاۃ الخلفاء، إیلی منیف شہلۃ، ص: ۴۰۔ [2] جولۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۹۷۔