کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 840
ذ: ابن ابی حازم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ علی بن حسین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کیا مقام و مرتبہ تھا؟ انہوں نے کہا: جو مقام آج ہے، کہ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں مدفون ہیں۔[1] ر: شعبی سے روایت ہے کہ میں نے قبیصہ بن جابر کو فرماتے ہوئے سنا: میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا ہوں۔ میں نے ان سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والا، دین کا علم و فہم رکھنے والا اور دینی مذاکرہ کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔[2] ز: حسن بصری کا قول ہے کہ: اگر تم اپنی مجلس میں تازگی لانا چاہتے ہو تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عادات وخصائل اور کارناموں کا تذکرہ کرو۔[3] اور کہا: جس گھرانے میں عمر رضی اللہ عنہ کی کمی نہ محسوس کی گئی وہ گھرانہ برا گھرانہ ہے۔[4] س: علی بن عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ: ایک مرتبہ میں سخت سردی کے دن عبدالملک بن مروان کے پاس گیا، دیکھا تو وہ ایک سائبان کے نیچے بیٹھے تھے، وہ نیچے سے سرخ و رو اون اور اوپر سے موٹا اون لگا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد چار انگیٹھیاں جل رہی تھیں،[5] جب شدید سردی سے میرے دانتوں کے بجنے کی آواز سنی تو کہا: مجھے لگتا ہے کہ آج شدید سردی ہے۔ میں نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے! شام والوں کو کیا معلوم کہ ان پر اس سے بھی زیادہ سخت سرد دن آسکتا ہے۔ پھر دنیا کی چمک دمک کا ذکر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا: معاویہ یہاں چالیس سال رہے بیس سال امیر اور بیس سال خلیفہ بن کر رہے، واقعتا ابن حنتمہ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ ) بہت زیرک اور دنیا کے کی سیاست سے واقف تھے۔[6] ۸: عمر رضی اللہ عنہ کی مدح سرائی دور حاضر کے علماء وادباء کی زبانی: الف:ازہر یونیورسٹی مصر کے سابق شیخ الازہر ڈاکٹر محمد محمد الفحام کہتے ہیں: ’’سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے کارنامے آپ کی سیاسی برتری کا لوہا منواتے ہیں، مختلف خدا داد صلاحیتوں اور ہمیشہ باقی رہنے والی بے مثال عبقریت کو نمایاں کرتے ہیں، جو آپ کی خلافت کی زندگی میں پیش آنے والے مشکلات و حوادث کی طرح ہماری زندگی کی مختلف مشکلات وحوادث سے نمٹنے میں ہمارے سامنے چراغ راہ بنتے ہیں۔‘‘[7]
[1] معجم الکبیر، الطبرانی: ۹/۱۷۸۔ اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں انقطاع ہے۔ [2] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/ ۳۷۴۔ [3] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/۳۷۳، اس کی سند صحیح ہے۔ [4] الطبقات الکبرٰی: ۳/ ۳۶۹۔ [5] تاریخ المدینۃ: ۳/۳۴۵، اس کی سند منقطع ہے۔ الحلیۃ: ۱/۵۴۔ [6] تاریخ الإسلام فی عہد الخلفاء الراشدین، ذہبی، ص:۲۶۷۔