کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 835
منسوب کی جانے والی اس تہمت کا ردّ کیا ہے، فرماتے ہیں کہ: اس پیچیدہ واقعہ کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ اس باب میں کعب احبار سے متعلق جو روایت امام طبری نے نقل کی ہے وہ کئی اسباب و وجوہ کی بنا پر صحیح نہیں ہے۔ ان میں چند اہم وجوہات یہ ہیں: ا: اگر یہ واقعہ صحیح ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ توقع کرنا بالکل بجا ہے کہ آپ صرف کعب کی بات پر اکتفا نہ کرتے بلکہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جیسے دوسرے لوگ جنہوں نے یہودیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا اور انہیں تورات کا بہترین علم تھا، آپ ان لوگوں کو اکٹھا کرتے اور اس واقعہ کے بارے میں ان سے پوچھتے، پھر حقیقت سامنے آنے کے بعد کعب رحمہ اللہ کی بے عزتی ہوتی ، لوگوں کی نگاہ میں وہ جھوٹے مانے جاتے اور عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بھی یہ بات واضح ہو جاتی کہ آپ کے قتل کی جو سازش کی گئی ہے کعب بھی اس میں شریک ہیں یا کم از کم انہیں اس کا علم ضرور ہے اور اس وقت عمر رضی اللہ عنہ بھی مختلف وسائل و ذرائع سے حقیقت کا پتہ چلاتے، سازش کرنے والوں کو سخت سزا دیتے، ان میں کعب کو بھی سزا ملتی۔ ایسے واقعہ میں ہر حال میں یہی توقع ہے چہ جائے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی بات ہو، جو کمال دانائی، ذہن کی سرعت اور حقائق کی تہ تک پہنچنے میں کافی شہرت یافتہ تھے، لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ سراسرمن گھڑت ہے۔[1] ب: اگر اس واقعہ کا ذکر تورات میں آیا ہوتا تو صرف کعب رحمہ اللہ ہی کو اس کا علم نہ ہوتا، بلکہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جیسے جن لوگوں کو بھی تورات کی معلومات تھیں وہ سب اسے جانتے۔[2] ج: اگر اس واقعہ کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کعب اس سازش میں برابر کے شریک تھے اور اپنی ہی سازش کو خود عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان کر دیا۔ حالانکہ یہ بات عقل اور واقع کے بالکل خلاف ہے، جو شخص کسی حادثہ کی سازش میں شریک ہوتا ہے وہ حادثہ پیش آجانے کے بعد بھی اسے مکمل طور پر پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ حادثہ کار کے برے انجام سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔ گویا حادثہ پیش آنے سے پہلے کسی سازش کا راز فاش کر دینا عقل مند کا نہیں بلکہ حد درجہ بے وقوف اور مغفل انسان کا کام ہے اور کعب ایسے نہ تھے، ان کی ذکاوت اور فہم و فراست بھی لوگوں میں مسلم تھی۔[3] د: تورات شریعتِ الٰہی کی کتاب ہے، لوگوں کی عمر کی تحدید سے اس کا کیا تعلق؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے جو بھی کتابیں نازل فرمائیں ان کا مقصد لوگوں کو ہدایت یاب کرنا تھا، اس قسم کی واہی تباہی خبریں بیان کرنا نہیں۔[4]
[1] جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، محمد السید الوکیل: ۲۹۴۔ [2] سیر أعلام النبلاء: ۳/۴۸۹۔ ۴۹۴۔ [3] تاریخ الطبری: ۵/۱۸۲، ۱۸۳۔ [4] العنصریۃ الیہودیۃ وآثارھا فی المجتمع الإسلامی: ۲/۵۱۸، ۵۱۹۔