کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 833
آنکھیں تو میں انہیں آنسو بہانے سے نہیں روک پاؤں گا۔[1] اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا تو خبر ملتے ہی اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا چیخنے لگیں، عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً حفصہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کر کے کہا: اے حفصہ! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا: (( اِنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَیْہِ یُعَذَّبُ۔)) ’’جس کی موت پر نوحہ کیا گیا وہ عذاب دیا جائے گا۔‘‘ پھر صہیب رضی اللہ عنہ آئے اور روتے ہوئے کہا: ہائے عمر! آپ نے کہا: اے صہیب تیرا برا ہو، کیا تجھے یہ حدیث نہیں پہنچی: ’’جس کی موت پر نوحہ کیا گیا وہ عذاب دیا جائے گا۔‘‘[2] حق پر ثابت قدمی کی ایک زندہ مثال یہ دیکھیے کہ جب آپ پر حملہ ہوا اور آپ خون میں لت پت تھے، کسی نے کہا: عبداللہ بن عمر(اپنے بیٹے) کو خلیفہ بنا دیجیے آپ نے فرمایا: تو چاپلوسی کرتا ہے، اللہ کی رضا کے لیے تو نے یہ بات نہیں کہی۔[3] ۵: منہ پر تعریف کرنے کا جواز بشرطیکہ موصوف کے فتنے میں واقع ہونے کا اندیشہ نہ ہو: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا، چند صحابہ جنہیں یقین تھا کہ منہ پر تعریف کرنے سے عمر رضی اللہ عنہ فتنہ میں نہیں پڑیں گے، انہوں نے آ کر سامنے آپ کی تعریف کی، علماء میں عالم ربانی اور فقہائے اسلام میں بہت بڑے فقیہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب سارے مسلمان مکہ میں ڈرے سہمے رہتے تھے تو کیا اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے حق میں یہ دعا نہیں کی تھی کہ اللہ آپ کے ذریعہ سے دین اسلام اور مسلمانوں کو غالب کر دے؟ اور ایسا ہی ہوا کہ جب آپ اسلام لائے تو آپ کا اسلام معزز رہا اور مذہب اسلام کا غلبہ ہوا،… اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے تمام مسلمانوں کے گھروں میں ان کے دین کو وسعت دی، روزیوں میں برکت دی اور اب آپ کی موت شہادت پر کر رہا ہے، پس قابل مبارک باد اور خوش قسمت ہیں آپ! ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ سب کچھ کہا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر اس کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور نہ آپ خوش ہوئے، بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ ’’بے شک جسے تم لوگ دھوکا دے دو وہ دھوکا میں پڑ گیا۔‘‘[4] ۶: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت کے بارے میں کعب احبار کے موقف کی حقیقت: کعب احبار سے مراد کعب بن ماتع حمیری ہیں، ان کی کنیت ابو اسحق ہے، کعب احبار کے نام سے شہرت پائی
[1] سیر الشہداء، ص:۴۱۔ [2] صحیح البخاری، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر ۳۷۰۰۔ [3] صحیح البخاری، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر ۳۷۰۰۔ [4] فتح الباری: ۷/۶۵، سیر الشہداء، ص: ۴۴۔