کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 831
واحرقلبی أن یکون مع القلوب القاسیہ ’’ہائے افسوس! میرے دل کی تپش، مبادا وہ سخت دنوں کے ساتھ نہ ہو۔‘‘ کلا ولا قدمت لی عملًا لیوم جسابیہ ’’ہرگز نہیں (کہیں ایسا تو نہیں کہ) روز جزا کے لیے میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ بل إننی لشقاوتی وقساوتی وعذابیہ بارزت بالزلات فی أیام دھر خالیۃ ’’بلکہ میں نے اپنی بدبختی، سنگ دلی اور خود کو عذاب کے حوالے کرنے کے لیے گذشتہ ایام اور عیش ومستی کے دنوں میں میں نے کھلے عام غلطیاں کیں۔‘‘ من لیس یخفی عنہ من قبح المعاصی خافیہ[1] ’’اس ہستی کے سامنے جس کی نظروں سے کوئی بھی گناہ اور لغزش پوشیدہ نہیں ہے۔‘‘ ۳: سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تواضع اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایثار: الف: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظیم تواضع: واقعہ ٔشہادت میں آپ کی تواضع کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے جان کنی کے وقت اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ام المومنین عائشہ کے پاس جاؤ اور کہو: عمر آپ کو سلام کہتا ہے، یہ نہ کہنا کہ امیرالمومنین آپ کو سلام کہتے ہیں، اس لیے کہ اس وقت میں مومنوں کا امیر نہیں ہوں۔[2] اسی طرح جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت دے دی تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے چلنا، پھر (باہر سے) ان (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگ رہا ہے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے حجرئہ نبویہ میں قبر میں اتارنا، ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں مجھے دفن کر دینا۔[3] اللہ کی کروڑ بار رحمتیں نازل ہوں عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر۔ اللہ
[1] صحیح البخاری، فضائل الصحابہ، حدیث نمبر:۳۷۰۰۔ [2] سیر الشہداء، دروس و عبرص: ۴۰۔