کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 83
ایک روایت میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس آیت میں عمل مراد ہے۔ ابن آدم جب بوڑھا ہو جاتا ہے اور اس کے آل واولاد کی کثرت ہوجاتی ہے تو وہ اپنے باغ کا بہت محتاج ہوتا ہے، اسی طرح جب وہ قبر سے اٹھایا جائے گا تو اپنے عمل کا بہت ہی محتاج ہوگا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بھتیجے! تم نے صحیح کہا۔ [1] آپ نے بعض آیات پر تعلیقات لگائیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157) (البقرۃ: ۱۵۶۔۱۵۷) ’’وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔ ‘‘ اس آیت کے بارے میں آپ نے فرمایا: کیا ہی بہتر ہیں دونوں عدل اور کیا ہی بہتر بلندی۔ [2] آپ دونوں عدل سے نماز اور رحمت اور بلندی سے ہدایت مراد لے رہے تھے۔ [3] آپ نے ایک قاری کو پڑھتے ہوئے سنا: يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (الانفطار:۶) ’’اے انسان! تجھے اپنے ربّ کریم سے کس چیز نے بہکایا۔‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الجہل‘‘ یعنی جہالت نے۔ [4] آپ نے اللہ تعالیٰ کے قول: وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (التکویر:۷) ’’اور جب جانیں (جسموں سے) ملا ئی جائیں گی‘‘ کی تفسیر اس طرح کی: فاجر فاجر کے ساتھ ہوگا، اور بُرا بُرے کے ساتھ۔ [5] اور اللہ تعالیٰ کے قول: تُوبُوا إِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَصُوحًا (التحریم:۸) ’’تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو‘‘ کی تفسیر اس طرح کی ہے: یعنی انسان ایسی توبہ کرے کہ پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے تو یہی توبہ مکمل اور ضروری ہے۔ [6]
[1] اخبار عمر ابن الخطاب، الطنطاویات، ص:۳۰۸نقلًا عن الریاض النظرۃ [2] فتح الباری: ۸/ ۴۹