کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 816
اب مذکورہ چند جملوں میں مختصراً جن باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کی تفصیل بتائی جا رہی ہے: الف: مجلس شوریٰ کے اراکین اور ان کے نام: یہ مجلس چھ ارکان پر مشتمل تھی، ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں: عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب ، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، زبیر بن عوام اور طلحہ بن عبیداللہرضی اللہ عنہم ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے سعید بن زید بن نفیل رضی اللہ عنہ کو اس مجلس میں شامل نہیں کیا، حالانکہ آپ بھی عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ چونکہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے اس لیے انہیں شامل نہیں کیا۔[1] ب: خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ: آپ نے مجلس شوریٰ کے اراکین کو حکم دیا تھا کہ ان کے انتقال کے بعد کسی ایک کے گھر میں جمع ہو جائیں اور مشورہ کریں۔ اس مجلس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بھی بحیثیت مشیر کے شریک کر لیں، لیکن خلافت میں حصہ دار بننے کا انہیں کوئی حق نہ ہوگا۔ خلیفہ کے انتخاب تک صہیب رومی رضی اللہ عنہ لوگوں کی امامت کریں گے، مقداد بن اسود اور ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہما کو اس بات پر مامور کیا کہ انتخابی کارروائی کی نگرانی کریں۔[2] ج: انتخاب اور مشاورت کی مدت: آپ نے انتخابی مدت تین دن مقرر کی تھی اور یہ مدت اپنے مقصد کے لیے کافی تھی کیونکہ انتخاب مدت میں زیادہ موقع دینا اختلاف کو ہوا دینے کے مترادف تھا۔ چنانچہ آپ نے سختی سے کہا: تین دن کے بعد چوتھا دن نہ آنے پائے کہ تمہارا امیر مقرر ہو جانا چاہیے۔[3] د: خلیفہ کے انتخاب کے لیے کتنے ووٹ کافی ہیں: عام طور سے مشہور ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کی چھ رکنی کمیٹی مقرر کرتے ہوئے انہیں حکم دیا کہ وہ سب یکجا ہوں اور باہم مشو رہ کریں اور یہ تحدید کر دی کہ اگر ان میں سے پانچ کسی پر متفق ہو جائیں اور ایک انکاری ہو تو اس کی گردن مار دی جائے اور اگر چار لوگ کسی ایک پر متفق ہو جائیں اور دو انکار کریں تو ان دونوں کی گردن مار دی جائے۔[4] لیکن یہ روایت غیر مستند روایات میں سے ہے، اس کا تعلق ان غیر معقول اور انوکھی روایات سے ہے جنہیں ابو مخنف (رافضی) نے صحیح نصوص اور صحابہ کی بے داغ و پاک باز سیرتوں کے برخلاف ذکر کیا ہے۔ یہ روایت بالکل جھوٹی اور منکر ہے۔ کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے بارے میں ایسا کیوں کر کہہ سکتے ہیں جب کہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لوگ صحابہ کرام میں سب سے زیادہ پاک باز ہیں اور آپ ہی نے ان کی افضلیت اور مقام و
[1] الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب/ العانی ص:۱۶۱۔ [2] أولیات الفاروق، ص:۱۲۲۔ [3] اولیات الفاروق، ص:۱۲۴۔