کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 814
آپ کی میت لے کر نکلے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو سلام عرض کیا اور کہا: عمر، خطاب کا بیٹا آپ سے اجازت چاہتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: لے جاؤ، حجرے میں دفن کر دو۔ چنانچہ آپ حجرے میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کر دیے گئے۔[1] بعض دوسری روایات میں کچھ مزید تفصیلات ملتی ہیں جن کا ذکر عمرو بن میمون کی اس روایت میں نہیں ہے۔ مثلاً ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سحری کے وقت زخمی کیے گئے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابو لؤلؤ نے آپ کو خنجر مارا تھا، وہ ایک مجوسی غلام تھا۔[2] اور ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابو لؤلؤ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا مجوسی غلام تھا اور آٹا تیار کرنے والی چکی کا کاریگر تھا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے تھے۔ ابولؤلؤ عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: اے امیرالمومنین! مغیرہ نے مجھ پر محصول کافی گراں کر دیا ہے، آپ ان سے کہیں کہ کم کر دیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ سے ڈرو اور اپنے مالک کے ساتھ بھلائی کرو۔ اس سے یہ کہنے کے باوجود آپ کی نیت تھی کہ مغیرہ سے ملیں گے اور محصول کم کرنے کے لیے ان سے کہیں گے، لیکن غلام، عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بات پر سخت غصہ ہوگیا، اور کہا: میرے علاوہ پوری دنیا کے لیے آپ کا انصاف ہے؟ اور اسی وقت آپ کو قتل کرنے کی ٹھان لی۔ پھر اس نے ایک خنجر بنایا، جس کے بیچ میں دستہ اور دونوں طرف نیزے کے پھل تھے، اس کی دھار کو خوب تیز کیا، پھر اسے زہر آلود کیا اور ہرمزان کے پاس لایا اور اس سے کہا: اس خنجر کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: میرے خیال میں اس خنجر سے جس پر تم وار کرو گے اسے قتل ہی کر دو گے۔ پھر ابولؤلؤ، عمر رضی اللہ عنہ کی تاک میں رہنے لگا۔ ایک دن فجر کی نماز میں وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے آکر کھڑا ہوا، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے معمول کے مطابق آج بھی نمازیوں سے کہا: اپنی اپنی صفیں درست کر لو۔ صفوں کی درستی سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع ہی کی تھی کہ اسی لمحہ ابو لؤلؤ نے خنجر سے ایک وار آپ کے کندھے پر اور دوسرا وار پہلو پر کیا، پھر آپ زمین پر گر گئے۔[3]عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب آپ کو خنجر کی ضرب لگی تو میں نے آپ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: ﴿وَكَانَ أَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَقْدُورًا (38)(الاحزاب: ۳۸) ’’اللہ تعالیٰ کے کام اندازے پر مقرر کیے ہوئے ہیں۔‘‘ اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے لیے جدت طرازی: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک امت مسلمہ کی وحدت اور اس کے بہترین مستقبل کی فکر دامن گیر تھی۔ حالانکہ آپ اس وقت کاری زخموں کی تکلیفوں سے دوچار تھے، بلاشبہ یہ یادگار لمحات ہیں اور ان لمحات