کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 81
تو آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تھا، تو آپ نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَہْرَہٗ بِیَمِیْنِہٖ وَاْستَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ خَلَقْتُ ہٰؤُلَائِ لِلْجَنَّۃِ وَبِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ یَعْمَلُوْنَ ثُمَّ مَسَحَ ظَہْرَہٗ فَاْستَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ خَلَقْتُ ہٰؤُلَائِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ یَعْمَلُوْنَ۔)) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر آپ کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا اور اس سے ایک ذریت نکالی، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے ان لوگوں کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ اہل جنت والے اعمال کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ایک ذریت نکالی، اللہ نے فرمایا: میں نے ان لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جہنمیوں والے اعمال کریں گے۔‘‘ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّۃِ اسْتَعْمَلَہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَمُوَْ عَلٰی عَمَلِ مِنْ أَعْمَالِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیَدْخُلُہٗ بِہِ الْجَنَّۃَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ حَتّٰی یَمُوْتَ عَلٰی عَمَلِ مِنْ أَعْمَالِ أَہْلِ النَّارِ فَیَدْخُلُہُ بِہِ النَّارِ۔)) [1] ’’بے شک اللہ عزوجل جب بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں والا کام لیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں والے کاموں میں سے کسی کام پر وفات پاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل کردیتا ہے، اور جب بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں والا کام لیتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے کاموں میں سے کسی کام پر وفات پاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس عمل کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کردیتا ہے۔‘‘ اور جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا: سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ (القمر:۴۵) ’’عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کون سا لشکر شکست کھائے گا؟ کون سا لشکر غالب آئے گا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غزوہ بدر میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ڈھال سے بچاؤ کر رہے تھے اور پڑھ رہے تھے: سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ (القمر:۴۵) اس دن میں نے اس آیت کی تفسیر کو جان لیا۔ [2]
[1] الفتاویٰ: ۲۸/ ۱۰ [2] اس کی سند صحیح ہے اور مسلم کی شرط پر ہے۔ دیکھیے: مسند أحمد، حدیث نمبر: ۱۷۵