کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 801
وہاں مسجد تعمیر کرتے، اس لیے کہ مسلم معاشرے میں اس کا اپنا منفرد دعوتی، تربیتی اور جہادی کردار ہے۔[1] جہاں تک آپ کے دور میں شامی محاذ پر رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان سرحدی حدود کی حفاظت کا تعلق ہے تو اس کی طرف آپ نے اسی وقت سے اپنی توجہ مرکوز کر دی تھی جب سے شامی ممالک اسلامی فتوحات کے دائرہ میں داخل ہو رہے تھے، چنانچہ آپ نے سرحدی علاقوں کی حفاظت کے لیے مختلف ومتعدد دفاعی اقدامات کیے، مثلاً سرحد نگراں چوکیاں قائم کیں، پہرے دار متعین کیے، جگہ جگہ مسلح فوجی چھاؤنیاں اور مراکز بنائے، ساحلی علاقوں کی حفاظت کا انتظام کیا، فوجی رباط قائم کیے، مزید برآں جو قلعے وہاں پہلے سے موجود تھے، سب کو باقی رکھا، دشمن سے چھینے ہوئے ان قلعوں کو برباد نہ کیا، بلکہ اس میں قیام کرنے والی افواج کو منظم کیا، یعنی کون سی جماعت جنگی محاذ پر ہوگی اور کون جائے گی، کون آئے گی، اس طرح شام کے پورے ساحلی علاقوں کو ایک متحدہ فوجی ادارے سے جوڑ دیا۔ جس سال آپ نے باشندگان بیت المقدس سے صلح مصالحت کرنے کے لیے بلاد شام کا دورہ کیا تو شام کی بعض سرحدوں کا جائزہ لیا، پھر وہاں محافظوں اور مسلح افواج کو تیار کیا اور امراء وقائدین کو منظم کیا، اس طرح آپ نے سرحد کو دشمن کی در اندازیوں سے بالکل محفوظ کر دیا، خود سرحدوں کا دورہ کیا تاکہ ان کی دفاعی ضروریات کا اندازہ کر سکیں۔[2] پھر آپ مدینہ لوٹ آئے، البتہ لوٹنے سے پہلے لوگوں میں یہ خطبہ دیا: ’’میں تمہارا حاکم بنایا گیا ہوں، تمہارے جن معاملات کو اللہ نے میرے ذمہ کیا ہے میں اسے پورا کر رہا ہوں۔ ان شاء اللہ۔ ہم نے تمہارے درمیان تمہارے اموال غنیمت، اقامت اور غزوہ پر نکلنے والی جماعت کو عدل وانصاف سے برابر برابر تقسیم کر دیا ہے۔ ہم نے تمہارے لیے اسلامی فوج مہیا کر دی ہے، سرحدوں کو محفوظ کر دیا ہے اور تمہیں وہاں ٹھہرا دیا ہے۔ شامی محاذ پر جنگ کے ذریعہ سے تم نے جو کچھ مال غنیمت حاصل کیا اسے تمہیں زیادہ سے زیادہ دے دیا ہے۔ تمہاری تنخواہیں مقرر کر دی ہیں اور تمہیں عطیات ووظائف، خوراک اور اموال غنیمت دینے کا حکم دے دیا ہے۔ اگر کسی کو نظم ونسق کی اس سے بہتر کوئی معلومات ہوں جو قابل عمل ہو، تو وہ ہمیں ضرور بتا دے، ہم ان شاء اللہ اسے ضرور بالضرور روبہ عمل لائیں گے۔ اللہ ہی کی قوت و توفیق پر مکمل اعتماد ہے۔[3] اسی طرح جب ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے شام کی شمالی حدود سے متصل انطاکیہ کی سرحد کو فتح کر لیا تو سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان کے نام خط لکھا: ’’صالح اور مخلص مسلمانوں کی ایک جماعت کو سرحد کی حفاظت پر مامور کر دو اور ان کے وظائف اور عطیات بند نہ کرو۔‘‘[4] چنانچہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حمص اور بعلبک کے مخلص و نیکوکار افراد پر مشتمل ایک جماعت تیار کی اور دشمن کے خارجی حملوں کے دفاع کے لیے اسے سرحد کی حفاظت پر مامور کر دیا اور حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کو ان کا ذمہ دارِ اعلیٰ بنا دیا۔ پھر انہوں نے اسلامی سلطنت کے حدود کے ماورائی علاقوں میں فوجی
[1] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۳۔ [2] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۳۔ [3] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۳۔ [4] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۴۔ [5] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۴۔ [6] مالک بن طوق کے قریب دریائے خابور پر ایک شہر کا نام ہے جہاں دریائے خابور فرات سے جا ملتا ہے۔