کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 799
فرائض سونپے گئے، جن میں سے چند ایک کا ذکر پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے۔ اسلامی سلطنت اور مفتوحہ ممالک کی سرحدوں پر جو مقامات اہمیت کی حامل تھے وہاں دشمن کے خارجی حملوں اور در اندازیوں کے دفاع کی خاطر ان فوجی اڈوں کو صدر فوجی مقامات (ہیڈ کوارٹر) کے کام میں لایا جاتا۔ نیز انہیں فوجی اجتماعات کے مرکز اور اشاعت اسلام کے ادارہ کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ جن بڑے شہروں میں یہ فوجی اڈے قائم تھے ان میں بصرہ اور کوفہ سرفہرست ہیں، ان کی سرحدیں فارسی مملکت سے ملتی تھیں۔ اسی طرح مصر کے شہر فسطاط میں بھی فوجی اڈا قائم تھا۔[1] شام اور مصر کے ساحلی علاقوں میں رومیوں کے بحری حملے کے دفاع کی خاطر فوجی چھاؤنیاں بنائی گئی تھیں۔ ان کے علاوہ بھی آپ نے چار بڑی فوجی چھاؤنیاں قائم کیں جنہیں جند حمص، جند دمشق، جند اردن اور جند فلسطین کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا، کیونکہ فوج کا یہی رہائشی مرکز ہوتا تھا اور ان مقامات کی چھاؤنیوں سے ان کا اتنا گہرا ربط ہوگیا کہ یہی نسبت نسب اور قبیلے پر مستزاد ان کے تعارف کی ایک علامت بن گئی۔ فوجی مہمات میں کسی کارروائی کو منظم کرتے وقت یا ان کے ذاتی حالات وضروریات کی رعایت (مثلاً تنخواہ تقسیم کرنے) کے وقت ان کے امراء انہیں انہی جگہوں کی طرف منسوب کر کے بلاتے تھے۔[2] سرحدی حفاظت کے یہ انتظامات صرف فوجی اڈوں پر اور چھاؤنیوں تک محدود نہ تھے، بلکہ دشمن کے ملک سے متصل سرحدوں پر سرحدی پولیس چوکیوں کے ساتھ وہ مضبوط قلعے بھی حفاظتی انتظامات کے کام میں لائے جاتے تھے جو دشمنوں سے چھن کر مسلمانوں کے قبضے میں آئے تھے۔ مسلمانوں نے ایسے قلعوں کو فوجی اڈا بنا لیا اور اسلامی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس میں اپنی افواج ٹھہرائیں۔[3] اس طرح جیسے جیسے مسلمان کسی ملک کو فتح کر کے آگے بڑھتے مفتوحہ ملک کی آخری سرحد متعین کرتے اور کسی باصلاحیت فوجی قائد کی نگرانی میں وہاں مستقل حفاظتی فوج مقرر کر دیتے جو ہمہ وقت چاق و چوبند رہتی اور پہرے داری کرتی۔[4] عراق اور مشرق (بلاد عجم) میں آپ نے سرحدی حفاظت سے متعلق سب سے اہم کارروائی یہ کی کہ فارس سے متصل اسلامی سلطنت کی سرحد پر مسلح فوجی دستے پھیلا دیے، چنانچہ جب مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور مسلمانوں کو خبر ملی کہ فارسی لوگ یزدگرد کی حکومت پر متفق ہو چکے ہیں اور اب وہ ہمارے خلاف جنگی تیاری میں مشغول ہیں تو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کی اطلاع دی۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے خط کا جواب اس طرح دیا: ’’حمد وصلاۃ کے بعد! عجمیوں کے بیچ سے نکل جاؤ اور عراق کی سرحدوں پر پہنچ کر عجمیوں (ایرانیوں) کے قریبی ساحل پر پھیل جاؤ۔‘‘
[1] الفاروق عمر بن الخطاب، محمد رشید رضا، ص:۱۱۹۔ [2] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۲۵۶۔ [3] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۲۵۷۔ [4] تاریخ الیعقوبی: ۲/ ۱۵۵۔ [5] تاریخ الطبری بحوالۃ الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۳۵۲۔