کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 795
سے اچھی طرح واقف رہیں چنانچہ ہر فوجی چھاؤنی اور ہر لشکر میں آپ کے مخبر ہوتے تھے، جو آپ کو وہاں کی تفصیلی رپورٹ دیتے تھے۔[1] عمیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ شام کے ایک علاقہ کے حاکم تھے، وہ جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو شکایت کرتے ہوئے کہا: امیرالمومنین! ہمارے اور روم والوں کے درمیان ’’عرب سوس‘‘ نامی ایک شہر ہے، وہاں کے لوگ ہمارے راز کی باتیں ہمارے دشمن کو بتا دیتے ہیں، لیکن ان کا راز ہمیں نہیں بتاتے۔ ان کے بارے میں ہم کیا کریں؟ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تم ان کے پاس جاؤ تو انہیں اختیار دو کہ ہم تمہیں ایک بکری کی جگہ دو بکری، ایک اونٹ کی جگہ دو اونٹ، اسی طرح ہر چیز کا دوگنا دیں گے۔ (لیکن تم لوگ ایسا نہ کرو) اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو انہیں یہ چیزیں دیتے رہو اور وہ شہر نہ اجاڑو اور اگر نامنظور کریں تو انہیں ایک سال کی مہلت دو پھر وہ شہر اجاڑ دو۔[2] چنانچہ جب آپ ان کے پاس واپس آئے تو ان کے سامنے یہی بات رکھی، لیکن انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا، پھر عمیر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک سال کی مہلت دی اور بالآخر شہر کو اجاڑ دیا۔[3] ۶: فوج اتارنے کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب: عمر فاروق رضی اللہ عنہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے تھے کہ جب تک میدان جنگ کی جغرافیائی حالت، وہاں پہنچنے اور واپس ہونے کے راستے اور پانی اور شادابی کی وافر مقدار میں موجودگی کا تمہیں علم نہ ہو جائے، جنگ نہ چھیڑو۔[4] جیسے کہ معرکہ قادسیہ سے قبل آپ نے ان کے نام خط لکھا تھا کہ تمہاری فوج صحرائے عرب میں خیمہ زن ہو، اس لیے کہ ایسی صورت میں تمہارے فوجی دشمن سے بچ نکلنے کے راستے سے واقف ہوں گے۔ اگر ہزیمت ہوئی تو اپنی فوج لے کر حدود عرب میں سمٹ سکو گے اور چونکہ تم دشمن کی نسبت اس علاقہ سے زیادہ واقف ہو گے اس لیے وہ بزدل اور تم باہمت ہوگے۔[5] مزید برآں آپ نے سعد بن ابی وقاص، سلمان فارسی اور حذیفہ بن یمانرضی اللہ عنہم کو فوج کے پڑاؤ ڈالنے اور اقامت کرنے کے لیے مناسب مقام کے انتخاب کی ذمہ داری سونپی تھی،[6] اس طرح آپ نے قائدین لشکر میں جنگ سے متعلق اہم اداری امور تقسیم کر دیے تھے اور مناسب مقام کے انتخاب کے وقت قائدین کو واجبی حکم دیتے تھے کہ جس جگہ کو پڑاؤ ڈالنے کے لیے منتخب کریں اور جہاں فوجی صدر دفتر بنائیں وہاں سے دارالخلافہ کی اعلیٰ فوجی قیادت کے درمیان کوئی سمندری راستہ حائل نہ ہو، اس لیے کہ جنگی منصوبہ بندی، فوج کی امداد رسی اور انہیں سامان رسد کی فراہمی میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔[7]
[1] فتوح الشام، ابن اعثم: ۱/۲۵۳۔ ۲۵۵۔ [2] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۱۸۸۔ [3] نہایۃ الأرب: ۶/۱۷۰۔ [4] نہایۃ الأرب: ۶/۱۶۹۔