کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 79
لانے سے پہلی آیات کو چھوڑ کر بعد کے تمام اسباب نزول آپ کو حفظ تھے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ قرآن کے اسباب نزول کے بہت بڑے عالم تھے خاص طور سے اپنی اسلامی زندگی میں تو یہ مبالغہ کی بات نہ ہوگی۔ دراصل براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (قرآن) سیکھنے کے لیے بکثرت آپ کے ساتھ رہنا، اور فوت شدہ شرعی احکامات کو حفظ کرنا بھی اس کی اہم وجوہات میں سے ہیں، کیونکہ آپ آغاز نزول ہی میں اسباب نزول اور حفظ قرآن کا اہتمام کرتے تھے۔ مزید برآں حوادث واقع ہوتے رہتے جس سے یہ چیز اور بھی آسان ہوجاتی۔ [1] خود عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کئی آیات نازل ہوئیں، ان میں سے بعض کے مکی اور بعض کے مدنی ہونے پر اتفاق ہے۔ بلکہ بعض آیات کی زبان و مکان نزول کی صحیح معرفت عمر رضی اللہ عنہ ہی پر منحصر تھی۔ آپ نے آیت کریمہ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا(المائدۃ:۳) (آج میں نے تمہارے لیے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوگیا) کے بارے میں فرمایا: اللہ کی قسم! بے شک میں اس دن کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا نزول ہوا اور اس وقت کے بارے میں جانتا ہوں جس وقت اس کا نزول ہوا، وہ جمعہ کا دن اور عرفہ کی شام کا وقت تھا۔ [2] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ تنہا یا کسی دوسرے کے ساتھ بھی براہِ راست بعض آیات کے نزول کا سبب بنے، انہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (19) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (20) يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ (21) خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (22) (التوبۃ: ۱۹۔۲۲) ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔جو لوگ ایمان لائے اور انھوںنے ہجرت کی اور اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا، اللہ کے ہاں درجے میں زیادہ بڑے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔
[1] الفتاویٰ: ۲۸/ ۱۰ [2] مسند احمد کی احادیث کی تخریج میں اس حدیث نمبر (۳۷۸) کی احمد شاکر نے تصحیح کی ہے۔ [3] شہید المحراب، التلمسانی، ص: ۱۰۱ [4] الاتقان فی علوم القرآن، السیوطی (۱/۷۲)۔