کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 789
دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو تحقیق کا مادہ رکھتے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رعایا کے اپنے معاملات کو اپنے امراء وحکام کے حوالے کرنے کو صحیح نتیجہ اور درست بات تک پہنچنے کا سبب بتایا ہے، لیکن اگر کہیں عوام کی درست رائے تک رسائی ہو جائے اور حاکم اسے نہ جان سکے تو عوام کو چاہیے کہ اپنے حاکم کو اس کی طرف رہنمائی کر دے۔ شورائیت کو اسی لیے کار ثواب قرار دیا گیا تاکہ اس کے ذریعہ سے صحیح فیصلہ تک پہنچا جا سکے۔[1] بسا اوقات عمر رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کا ایک ہی امیر بناتے، جو سب کے معاملات کا نگران ہوتا اور اسی کا فیصلہ آخری ہوتا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ اختلاف رائے کی وجہ سے اختلاف کلیہ نہ پیدا ہو جائے۔[2] چنانچہ جس سال عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلامی افواج کو نہاوند روانہ کیا اور انہیں وہاں اکٹھا ہونے کا حکم دیا اس وقت لشکر میں انصار ومہاجرین پر مشتمل مدینہ کی فوج بھی شامل تھی جس کے امیر عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما تھے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بصرہ والوں کی فوج اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کوفہ والوں کی فوج تھی۔ جب یہ ساری افواج نہاوند میں اکٹھی ہوئیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے خط لکھا کہ جب تم سب لوگ وہاں پہنچ جاؤ تو نعمان بن مقرن مزنی تم سب کے امیر ہوں گے۔[3] ۳: امیر کے حکم کی فرمانبرداری کرنے میں جلدی کرنا: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا اقدام یہ کیا کہ لوگوں کو فارسیوں سے قتال کرنے پر ابھارا، انہیں مسلسل تین دن لڑائی پر نکلنے کے لیے بلاتے اور رغبت دلاتے رہے لیکن کوئی آگے نہ آیا۔ چوتھے دن ابوعبیدثقفی رحمہ اللہ نے خود کو پیش کیا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ ان کے اس اقدام سے متاثر ہوئے اور اس جماعت میں صحابہ کے موجود ہوتے ہوئے ابوعبید کو امیر بنا دیا، اس لیے کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے خلیفۂ وقت کی ندا پر لبیک کہا تھا۔[4] اسی طرح جب عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کو آپ نے بصرہ روانہ کیا تو انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اپنے فرائض کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرنا، نفس سے مرعوب ہو کر تکبر نہ کرنے لگنا کہ تمہارے ساتھی تم سے نفرت کرنے لگیں۔ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہے، انہیں کی وجہ سے تمہیں ذلت اور محترم ومخدوم حاکم بن گئے ہو، تم کوئی بات کہتے ہو تو اسے قبول کیا جاتا ہے، کوئی حکم دیتے ہو تو اس کی اطاعت کی جاتی ہے، کتنی عظیم نعمت ہے بشرطیکہ تم کبر وغرور کا شکار نہ ہو اور اپنے ماتحتوں کو حقیر وذلیل نہ جاننے لگو۔[5]
[1] الخراج، أبو یوسف، ص:۸۵۔ [2] الإدارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الإسلامیۃ: ۱/۶۶۔ [3] مروج الذہب: ۲/ ۳۱۵،۳۱۶۔