کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 788
چنانچہ اپنے قائدین لشکر اور فوج کو عمر رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں خیانت سے روکا: ’’جب تم دشمن سے ٹکراؤ تو پیٹھ پھیر کر نہ بھاگو اور جب مال غنیمت پاؤ تو اس میں خیانت نہ کرو۔‘‘[1] ۴: دین الٰہی کی تائید میں غیر جانب داری: دین الٰہی کی تائید اور حق کے لیے غیر جانب داری سے متعلق عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ’’جس نے صرف ذاتی محبت یا قرابت داری کی بنیاد پر کسی کو کوئی منصب دیا اس نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی اور جس نے کسی فاجر آدمی کو جان بوجھ کر ذمہ دار بنایا تو وہ اسی کی طرح ہے۔‘‘[2] قائد کے حقوق: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطوط، نصائح اور رہنمائیوں میں اسلامی فوج کے قائد کے کچھ حقوق بتائے ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ۱: امیر کی اطاعت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے جب ابوعبید بن مسعود ثقفی رحمہ اللہ کو محاذ عراق پر جانے والی اسلامی فوج کا امیر لشکر بنا کر بھیجا تو ان کے ساتھ سلمہ بن اسلم خزرجی اور سلیط بن قیس انصاری رضی اللہ عنہما کو بھی بھیجا اور ابوعبید کو حکم دیا کہ یہ دونوں بدری صحابی ہیں، ان دونوں سے مشورہ لیے بغیر کوئی کام مت کرنا۔ معرکہ جسر کے موقع پر ابوعبید نے فارسیوں سے جنگ لڑی، سلیط رضی اللہ عنہ نے ابوعبید کو مشورہ دیا تھا کہ دریا عبور کر کے جنگ نہ لڑیں، لیکن وہ نہ مانے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی لشکر کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ چنانچہ ایک مرتبہ سلیط رضی اللہ عنہ نے ابوعبید رحمہ اللہ سے اسباب ہزیمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اگر میں امیر کے حکم کی سرتابی حرام نہ سمجھتا تو اس وقت لوگوں کو لے کر الگ ہو جاتا اگرچہ آپ سے غلطی ہوئی، لیکن میں آپ کی بات مانتا اور اطاعت کرتا رہا، حالانکہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے آپ کا مشیر بنا کر بھیجا تھا۔[3] ۲: تمام تر معاملات کو امیر کے فیصلہ پر چھوڑ دینا: اللہ کا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا (83)(النساء: ۸۳) ’’جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی کہ انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے یا اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر
[1] تاریخ فتوح الشام، ص:۱۸۳۔ [2] صحیح البخاری، مع الفتح، حدیث نمبر: ۲۶۵۵۔