کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 787
وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللّٰهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (146) وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (147) فَآتَاهُمُ اللّٰهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (148)(آل عمران: ۱۴۶۔۱۴۸) ’’اور کتنے ہی نبی ہیں جن کے ہمراہ بہت سے رب والوں نے جنگ کی، تو نہ انھوںنے اس مصیبت کی وجہ سے ہمت ہاری جو انھیں اللہ کی راہ میں پہنچی اور نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انھوں نے عاجزی دکھائی اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔اور ان کی بات اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انھوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے کام میں ہماری زیادتی کو بھی اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافر لوگوں پر ہماری مدد فرما۔تو اللہ نے انھیں دنیا کا بدلہ عطا فرمایا اور آخرت کا اچھا بدلہ بھی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘ پس دنیا کا ثواب یہ ہے کہ فتح اور مال غنیمت ملے اور آخرت کا ثواب یہ ہے کہ مغفرت اور جنت ملے۔ میری یہ کتاب لوگوں کو پڑھ کر سناؤ اور حکم دو کہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور اس پر صبر کریں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا وآخرت دونوں کے ثواب عظیم سے نوازے۔[1] ۲: جنگ کا مقصد مذہب اسلام کی نصرت و سربلندی: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اس فرمان نبوی کو اچھی طرح سمجھا اور اس کا حق ادا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔)) [2] ’’جس نے اللہ کے کلمہ (مذہب اسلام) کی سربلندی کے لیے لڑائی کی، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی، نصائح اور خطوط میں یہی عظیم معنی غالب ہے۔ ۳: امانت داری برتنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (161)(آل عمران: ۱۶۱) ’’اور کسی نبی کے لیے کبھی ممکن نہیں کہ وہ خیانت کرے، اور جو خیانت کرے گا قیامت کے دن لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کی، پھر ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۲۶۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۳۰۶۔