کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 784
کمانڈر اپنی مجاہدانہ کارروائیوں میں اپنے مجاہدین سے پیش پیش رہتے تھے۔ اسی لیے ان کی بڑی تعداد اللہ کے راستے میں شہید کر دی گئی اور جب امن و قرار یا لوٹنے کا وقت ہوتا تھا تو اپنے ماتحت مجاہدین کے ساتھ ساتھ چلتے، مشقتیں اٹھاتے، دکھ درد میں ان کے شریک رہتے اور کمزوروں کی مدد کرتے۔ قائدین لشکر مجاہد ہونے کے ساتھ اوّل درجے کے مبلغ اور داعی اسلام بھی تھے۔ انہوں نے جنگ کے اسلامی اصولوں کو پورا پورا برتا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر لڑائیوں کو مول لیا، وہ محض انتقامی جنگ اور خون ریزی کی داستانیں نہ تھیں جیسا کہ آج کے دور میں دوسرے ممالک کر رہے ہیں۔[1] فوجی قائدین کے انتخاب کا فاروقی منشور: فوجی قائدین کے انتخاب کے لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کچھ امتیازی اوصاف کو معیار مقرر کرتے تھے۔ مثلاً: ۱: قائد تقویٰ شعار، عبادت گزار ، اور شرعی احکامات کا عالم ہو: آپ کہتے اور بار بار دہراتے تھے: جس نے کسی فاسق و فاجر آدمی کو جان بوجھ کر ذمہ دار بنایا تو وہ بھی اسی کی طرح مجرم ہے۔[2] اور جب سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو شام کے بعض علاقوں کا امیر بنانا چاہا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت فرمایا: ایسا نہیں ہو سکتا! اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس (امارت وذمہ داری) کو میری گردن میں ڈال کر خود گھروں میں بیٹھو۔[3] ۲: قائد متحمل مزاج ہو جلد باز نہ ہو: جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے ابوعبید ثقفی کو ذمہ دار بنایا تو کہا: میں سلیط کو صرف اس وجہ سے امارت نہیں سونپ رہا ہوں کہ وہ جنگ کے بارے میں جلد باز واقع ہوئے ہیں اور جب تک جنگ کی کھلی ضرورت محسوس نہ ہو تب تک اس میں عجلت کرنا نقصان دہ ہے۔ اللہ کی قسم! اگر ان میں جلد بازی نہ ہوتی تو انہی کو امیر بناتا، لیکن جنگ کے لیے متحمل مزاج لوگ ہی مناسب ہوتے ہیں۔[4] ۳: قائد جرأت مند، بہادر اور تیر انداز ہو: معرکہ نہاوند کے موقع پر جب عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے اسلامی لشکر پر کمانڈر جنرل متعین کرنے کے بارے میں مشورہ لیا تو انہوں نے کہا: آپ اپنی فوج اور عراق کے باشندوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں، وہ آپ کے پاس آچکے ہیں، آپ انہیں دیکھ چکے ہیں اور ان کی گفتار سے واقف ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں انہیں ایسے آدمی کے سپرد کروں گا جو کل معرکہ کارزار میں سب سے پہلے نیزے کی انی اچھالے۔ لوگوں نے
[1] الاسلام وحرکۃ التاریخ، أنور الجند، ص:۸۳۔ [2] علم التاریخ عند المسلمین، ترجمہ صالح أحمد العلی، ص:۴۶۔