کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 78
الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ (النور:۵۸) [1] ’’ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین اوقات میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے: نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔‘‘ ٭ حرمت شراب کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی دعا: جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ (البقرۃ:۲۱۹) ’’لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں۔‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا فرمائی: (( اَللّٰہُمَّ بَیِّنْ لَنَا فِی الْخَمْرِ بَیَانًا شَافِیًا۔)) ’’اے اللہ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے اطمینان بخش حکم بیان فرما۔‘‘ تو سورۂ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى (النساء:۴۳) ’’اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ۔‘‘ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کھڑی کرتے تو منادی اعلان کردیتا کہ کوئی بدمست نماز کے قریب نہ آئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ بلائے گئے اور آپ کے سامنے یہ آیت فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (المائدہ:۹۱) (کیا تم اب بھی باز نہیں آؤ گے) تلاوت کی گئی، تو آپ نے کہا: ہم باز آگئے، ہم باز آگئے۔[2] اس طرح بتدریج شراب کی حرمت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (المائدہ:۹۱) میں استفہام انکاری سے عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا تھا کہ اس سے حرمت مراد ہے، اس لیے کہ عمومی ممانعت کے مقابلہ میں استفہام انکاری کے ذریعہ سے کسی چیز کی ممانعت حرمت کے لیے زیادہ ٹھوس اور قوی ہے۔ پس پیش نظر آیت کے الفاظ، ان کی ترکیب اور انداز بیان میں دہشت آمیز دھمکی ہے جو حرمت کے باب میں سورج کی طرح واضح ہے۔ [3] ٭ اسبابِ نزول پر آپ کی خصوصی توجہ: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے قبولِ اسلام اور وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل پورا قرآن مجید حفظ کرلیا تھا،[4] اسلام
[1] مسند أحمد، حدیث نمبر: ۲۲۱۔ علامہ احمد شاکر نے اس کی تصحیح کی ہے، صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۷۶۳ [2] الریاض النضرۃ، ص:۳۳۲۔ اس کی سند ضعیف ہے، واقدی نے اس روایت کو بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔